بدعتی گھرانے میں لڑکی کانکاح

 ہمارے یہاں دوطلاق یافتہ لڑکیاں سات برس سے والدین کے گھر بیٹھی ہوئی ہیں۔ دوسرے نکاح کے لیے جو رشتے آتے ہیں وہ اکثر بدعات وخرافات میں مبتلا گھروں سے ہوتے ہیں۔ یہ بات جانتے ہوئے کیا ہم ان لڑکیوں کا نکاح وہاں کرسکتے ہیں؟ واضح رہے کہ ان کے بھائیوں کا نکاح ہوچکا ہے اور والدین بوڑھے ہیں۔

جواب

ضروری ہے کہ بچوں کے بالغ ہونے کے بعد جلد ازجلد ان کے نکاح کی فکر کی جائے۔ اس میں تاخیر سے بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور سماج میں اخلاقی بگاڑ اور بے حیائی کو فروغ ملتا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ عائلی زندگی میں خوش گواری برقرار رکھنے کی تدابیر اختیارکی جائیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کائونسلنگ کی جائے، ان کے سامنے اسلام کی عائلی تعلیمات بیان کی جائیں اور ان پر عمل کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے نکاح کے بعد بہت جلد شکایات پیدا ہونے لگتی ہیں اور تنازعات سرابھارتے ہیں، یہاں تک کہ علٰیحدگی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس معاملے میں عموماً لڑکیاں ہی خسارہ میں رہتی ہیں۔ لڑکوں کا تو آسانی سے دوسرا نکاح ہوجاتا ہے ، لیکن لڑکیاں ، جن کا پہلا نکاح ہی عموماً دشوار ہوتا ہے اور اسی میں والدین ہلکان ہوجاتے ہیں، ان کا دوسرا نکاح دشوارتر ہوجاتا ہے ۔ نکاح ثانی کے انتظار میں برسوں بیت جاتے ہیں اور بہت سی لڑکیوں کا تو دوسرا نکاح ہو ہی نہیں پاتا۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد غیرشرعی رسوم وروایات میں گرفتار ہے۔یہ رسوم عبادات میں شامل کرلی گئی ہیں اور معاشرتی زندگی بھی ان سے زیر بار ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت تواس مقصد سے ہوئی تھی کہ لوگوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے، اسے اتاردیں اور جن بیڑیوں میں وہ جکڑے ہوئے تھے ان سے آزادی دلادیں(الاعراف۱۵۷) لیکن آپؐ کی امت نے اپنی مرضی سے اپنے اوپر رسوم وروایات کے بھاری بوجھ لادلیے ہیں اور خود کوان کی بیڑیوں میں جکڑدیا ہے ۔ یہ روایات ان کی کمر توڑدے رہی ہیں اور انھوں نے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنارکھا ہے ، لیکن وہ ان سے باز آنے پر تیار نہیں ہیں۔

اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے پیمانے پر اصلاح معاشرہ کی تحریک چلائی جائے۔ مسلمانوں کے سامنے اسلام کو خالص اور بغیر آمیزش کے اصلی شکل میں پیش کیا جائے، انھیں غیر شرعی اورمسرفانہ رسوم ترک کرنے کی تلقین کی جائے اور بدعات وخرافات کی شناعت بیان کرکے ان سے اجتناب کرنے کی تاکید کی جائے۔

نکاح کے موقع پر دین داری کو ترجیح دینی چاہیے ،خاص طورپر لڑکیوں کے لیے ایسے گھرانے کا رشتہ تلاش کرنا چاہیے جہاں وہ پاکیزہ اور خوش گوارزندگی گزارسکیں اور دین کے تقاضوں پر عمل کرنے میں انہیں کوئی دشواری نہ ہو، لیکن اگر کوئی ایسا معیاری رشتہ نہ مل پارہاہو تو اس کی امید میں لڑکیوں کو گھر بٹھائے رکھنا دانش مندی نہیں ہے، خاص طورپر اس صورت میں جب کہ وہ طلاق یافتہ ہوں،والدین بوڑھے ہوں اور بھائیوں کے بھی نکاح ہوچکے ہوں، بلکہ جلد از جلدان کے دوسرے نکاح کی فکر کرنی چاہیے۔اپنی لڑکیوں کی ایسی تربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ جس ماحول میں بھی پہنچیں ، وہاں نہ صرف دین پر قائم رہ سکیں، بلکہ اپنے مثبت اثرات ڈالنے میں بھی کام یاب ہوں۔ اس صورت میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ لڑکیاں جن گھرانوں میں پہنچیں گی، وہ اگر کچھ بدعات وخرافات کا شکار ہوں تو ان کے ذریعے ان کی کچھ اصلاح ہوسکے گی اور وہ پاکیزہ زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔