جواب
عہدِ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ آدمی دوسرے سے کہتا تھا : تم اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کردو ، میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تم سے کردوں گا اور دونوں کا مہر معاف ہوجائے گا۔ اسے ’نکاحِ شغار ‘ کہاجاتا تھا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقۂ نکاح سےمنع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الشِّغَارِ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شغار ‘سے منع کیا ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
لاَ شِغَارَ فِیْ الاْسلاَمِ
’’اسلام میں ’شغار ‘ جائز نہیں ہے ۔‘‘
بعضـ روایات میں ’ شغار ‘ کا مطلب بھی بتایا گیا ہے:
اَلشِّغَارُ اَنْ یُّزَوِّجَ الرَّجُلُ اِبْنَتَہٗ عَلَی اَنْ یُّزَوِجَہُ اِبْنَتَہٗ ، وَلَیْسَ بَیْنَہُمَا صَدَاقٌ
’’شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی سے دوسرے آدمی کا نکاح (اس شرط پر ) کردے کہ دوسرا اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردے اوران میں سے کسی کے ذمے اپنی بیوی کا مہر نہ ہو۔‘‘
یہ حدیث بخاری (۵۱۱۲،۶۹۶۰) مسلم (۱۴۱۵) کے علاوہ ابوداؤد، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، احمد، بیہقی اور دیگر کتبِ حدیث میں بھی مروی ہے ۔ محدثین کے نزدیک ’شغار ‘ کی یہ تشریح حضرت ابن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام نافع نے کی ہے ۔علامہ شوکانی نے ’ نکاح شغار ‘ کی دو علّتیں قرار دی ہیں : ایک یہ کہ اس میں ہر لڑکی کوحقِ مہر سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ دوسری یہ کہ اس میں ہر نکاح دوسرے نکاح سے مشروط اوراس پر موقوف ہوتا ہے ۔ (نیل الاوطار)
اگراس طریقۂ نکاح میں دونوں لڑکیوں کا مہر تو مقرر کیا گیا ہو، لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے سے مشروط اورمعلّق ہوں توبھی وہ ناجائز ہوں گے۔روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے بیٹے عباس نے عبدالرحمن بن الحکم کی لڑکی سے اورعبدالرحمن نے عباس بن عبداللہ کی لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں لڑکیوں کا مہر بھی مقرر کیا گیا ، لیکن حضرت معاویہ ؓ کواس نکاح کی خبر پہنچی توانہوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروانؒ کولکھا کہ اس نکاح کوفسخ کردیا جائے ، اس لیے کہ یہ وہی نکاحِ شغار ہے ، جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔(ابوداؤد۲۰۷۵:)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نکاح شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں اورتینوں کو ناجائز قرار دیا ہے : ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کوبدلے میں اپنی لڑکی دے گا اوران میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے ۔دوسرے یہ کہ شرط تووہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر مہر(مثلاً پچاس پچاس ہزار روپیہ )مقرر کیے جائیں اورمحض فرضی طورپر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے،دونوں لڑکیوں کوعملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے ۔ تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو ،بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔‘‘
(رسائل ومسائل ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ، طبع ۲۰۱۳ء : ۲؍۲۰۲)
بدلے کی شادیوں میں عموماً تلخی اورناخوش گوار ی کا اندیشہ رہتا ہے اوردونوں خاندانوں پر خانہ بربادی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے ۔ مثلاً اگرایک خاندان میں شوہر نے بے جا بیوی کی پٹائی کردی، یا دونوں کے درمیان تعلق میں خوش گواری باقی نہیں رہی، یا اس نے طلاق دے دی تو دوسرے خاندان میں لڑکے پر اس کے والدین یا دوسرے رشتے دار دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھی لازماً وہی طرزِ عمل اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرے۔
لیکن اگر دونوں رشتوں کی مستقل حیثیت ہو، دونوں لڑکیوں کا مہر طے کیا جائے اوران کو ادا کیا جائےاورایک رشتہ کسی بھی حیثیت میں دوسرے رشتے کومتاثر کرنے والا نہ ہو تو ایسے رشتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔