بعثت ِانبیاء کا مقصد

سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج (الحدید: ۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زندگی کی حد تک قیام عدل و انصاف ہی رسولوں کی بعثت کا مقصد ہے۔ عام طور پر پایا جانے والا یہ خیال ناقص ہے کہ بعثت ِرسل کی غرض ایک اللہ کی پرستش کرنے اور دوسروں کو غیر اللہ کی پرستش سے روکنے تک محدود ہے۔ دوسری طرف قرآن حکیم کی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایمان تقویٰ کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان خود مطلوب نہیں ، بلکہ بطور وسیلہ مطلوب ہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا میری یہ سوچ درست ہے؟
جواب

سورۃ الحدید کی مذکورہ بالا آیت میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور کتاب ِ الٰہی کے نزول کا مقصد یہ بیان کیا گیاہے کہ ’’لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔‘‘ اوپر درج شدہ سوال میں اس آیت کے حوالے سے قیامِ انصاف کو بہت سادہ مفہوم میں لیا گیا ہے۔ قیام انصاف صرف یہی نہیں ہے کہ سماج میں امن و امان ہو، لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور ایک دوسرے کے حقوق غصب نہ کریں ، بلکہ قیام انصاف کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلّاَ لِیَعْبُدُونِo (الذاریات: ۵۶)
’’میں نے جن اور انسانوں کو اس سے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیاہے کہ وہ میری بندگی کریں ۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی انسان اللہ کی عبادت نہیں کرتا تو وہ انصاف پر عمل پیرا نہیں ہے اور جو انسان اپنی انفرادی زندگی میں انصاف پر قائم نہیں رہ سکتا، اس سے اجتماعی زندگی میں قیام انصاف کی کیوں کر امید کی جاسکتی ہے۔ علامہ آلوسیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’رسولوں کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کرنے کی علت عدل و قسط کے قیام کو قرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ کہنا مقصود ہے کہ میزان کے استعمال کے ذریعے انسانوں کے باہمی تعلقات اور کتاب پر عمل کے ذریعے اخروی امور دونوں کا درجہ برابر کا ہے۔ ’قسط‘ ایک جامع لفظ ہے۔ اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں ، جن سے متصف ہونا دنیا اور آخرت کے تعلق سے ضروری ہے۔‘‘ (۱)
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس نکتے کی بہت اچھی طرح وضاحت اور عمدہ تشریح کی ہے۔ فرماتے ہیں :
’’انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان ِ خدا کے حقوق، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو، حیات ِ اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض ادا کریں ۔ بہ الفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدلِ انفرادی بھی تھا اور عدل ِاجتماعی بھی۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے، تاکہ اس کے ذہن، اس کی سیرت، اس کے کردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے، تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجائے معاون و مددگار ہوں ۔‘‘ (۲)
ایک چیز یہ بھی ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ قرآن حکیم کی کسی آیت سے ایسا مفہوم اخذ کرنا درست نہ ہوگا، جو دیگر آیات اور قرآن مجید کی مجموعی تعلیمات سے ٹکراتا ہو۔ سوال میں جس چیز کو ناکافی خیال کیا گیا ہے، وہ قرآن حکیم کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور سورۂ حدید کی آیت سے جو یک طرفہ نتیجہ نکالا گیا ہے، قرآن حکیم کی بہت سی آیات سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ذیل میں صرف ایک آیت درج کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَج (النحل: ۳۶)
’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا (اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا) کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو بھیجا ہی اس مقصد سے گیا ہے کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ کی عبادت کرنے اور غیر اللہ کی عبادت سے دور رہنے کی دعوت دیں ۔
سوال میں اصل مطلوب، بہ طور وسیلہ مطلوب اور اثرات کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ ’’ایمان تقویٰ کی پیدائش کا ذریعہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان خود مطلوب نہیں ، بل کہ بہ طور وسیلہ مطلوب ہے۔‘‘ اس کی بجائے یوں کہنا چاہیے کہ ’’اصل مطلوب ایمان ہے، اس کے نتیجے میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ گویا تقویٰ ایمان کے ثمرات میں سے ہے۔‘‘ اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنکَرِط (العنکبوت: ۴۵)
’’یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘
اس آیت کی روشنی میں یہ بات کہنی صحیح نہ ہوگی کہ نماز فحش اور برے کاموں سے روکنے کا ذریعہ ہے، اس لیے ان کاموں سے رکنا اصل مطلوب ہے اور نماز بہ طور وسیلہ مطلوب۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ نماز مطلوب ہے۔ صحیح طریقے سے نماز پڑھی جائے تو اس کے اثرات یہ ظاہر ہوں گے کہ انسان فحش اور برے کاموں سے رک جائے گا۔ یہی بات زیر بحث مسئلہ میں کہی جائے گی۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ انسان صرف اللہ کی عبادت کرے اور غیر اللہ کی پرستش سے رک جائے۔ جو شخص ایسا کرے گا وہ لازماً قیام انصاف پر بھی عمل پیرا ہوگا۔