بعض احادیث کی تحقیق

سود کی ممانعت کے موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے : عَنْ اَبی ہُرَیرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْباً اَیْسَرُہَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ (رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان ) ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سود کی شناعت ستر درجہ بڑھی ہوئی ہے اس کے مقابلے میں کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔‘‘ اس تمثیل پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں درج ذیل بیانات کی روشنی میں غور کیجئے: ۱- آپؐ استنجا کرتے وقت زمین کے قریب بیٹھ کر کپڑا ہٹاتے تھے۔ ۲- آپؐ کا چرواہا ، جوبارہ سال کی عمر کا لڑکا تھا ، ایک مرتبہ بکریاں چرانے کے دوران بغیر کپڑے کے سورہا تھا ۔ اس حرکت کی وجہ سے آپ ؐ نے اسے برخواست کردیا ۔ ۳- احادیث میں ہے کہ آپؐ نے نہ اپنی کسی زوجہ کی شرم گاہ کودیکھا نہ کسی زوجہ نے آپ کی شرم گاہ کودیکھا۔ ۴- حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ تنہائی میں بلا ضرورت بغیر کپڑے پہنے رہنا مناسب نہیں ۔ اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ ۵- زنا کے قریب جانے کی حرکت ہی نہیں ، بلکہ گفتگو سے بھی سخت منع کیا گیا ہے ۔ ۶- نگاہ کی خرابی کوزنا کی پہلی سیڑھی قرار دیا گیا ہے ۔ ۷- زانی کے لیے کوڑے اورسنگ ساری کی سزا ہے ۔ ۸- فحش باتیں پھیلانے والوں کو فوج داری سزا دی گئی ہے (واقعۂ افک ) ۹- جماع کے وقت بھی کپڑے پوری طرح ہٹانے سے منع کیا گیا ہے ۔ عریانیت اورزنا کے تعلق سے اتنی حساس تعلیمات دینے والی ہستی کیوں کر ایسی تمثیل بیان کرسکتی ہے جومذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس حدیث کورد کردیا جائے ، صرف اتنی درخواست ہے کہ اس کے سلسلے میں توقف اختیار کیا جائے اور اس کو مت بیان جائے ، تاآں کہ سند اور درایت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرلی جائے ۔
جواب

جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کی سند کا تعلق ہے اسے دیکھتے ہوئے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے پر علماء کا اختلاف ہے ۔ مشہور ناقدِ حدیث بوصیریؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور علامہ ابن الجو ز یؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب الموضـوعات میں ذکر کیا ہے ، یعنی ان کے نزدیک یہ موضوع (من گھڑت) ہے ، جب کہ علامہ منذریؒ صاحب الترغیب والترہیب نے لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح یا حسن ہے اور موجودہ دور کے مشہور محدث علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ نے سنن ابن ماجہ، الجامع الصغیر ، الترغیب والترہیب اورمشکوٰۃ المصابیح میں مروی اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
سوال میں درایت کے پہلوسے مذکورہ حدیث کے ناقابل اعتبار ہونے کے سلسلے میں جونکات درج کیے گئے ہیں وہ ناقابلِ التفات ہیں ۔ ایک سچے مسلمان کے لیے زنا کا تصور ہی انتہائی گھناؤنا اورکریہہ ہے ، خواہ اس کا ارتکاب کسی اجنبی عورت کے ساتھ کیا جائے ۔ اس طرزِ استدلال کوقبول کرلیا جائے تب تو ایسی تمام احادیث بے اعتبار ٹھہریں گی جن میں زنا کا تذکرہ آیا ہے ۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے توان میں بعض ایسے بیانات ملتے ہیں جنہیں عام حالات میں کوئی شریف آدمی اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرے گا ، لیکن ان کی صراحت بعض فقہی نکتوں یا قانونی باریکیوں کی وضاحت کے لیے کی گئی ہے ۔ یہ پہلو نگاہوں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے ’اہلِ قرآن ‘ نے بہت سی احادیث کو تختۂ مشق بنایا ہے اور ان میں بے حیائی اورعریانی کی بوٗسونگھی ہے ۔ معتبر علماء نے ان کے ان اشکالات کا جواب دیا ہے اوران کی معقولیت واضح کی ہے ۔