بعض احادیث کی تحقیق(۱)

ایک حدیث یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر عمل کے اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچنے کے لیے درمیان میں حجاب ہوتا ہے ، مگر لا الہ الا اللہ اورباپ کی دعا بیٹے کے لیے۔ ان دونوں کے لیے کوئی حجاب نہیں ‘‘۔ بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حدیث کیا درجہ اورمقام رکھتی ہے؟ کیا اسلام میں صرف لڑکے ہی خصوصیت واہمیت رکھتے ہیں اوربھلائیوں اوررحمتوں کےمستحق ہیں ؟ لڑکیوں کی کوئی حیثیت واہمیت ؟ اگر باپ اپنی بیٹیوں کے لئےدُعا کرے تو کیا بہ راہِ راست اللہ تک نہیں پہنچتی؟ پھر اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کیا مقام رکھتا ہے کہ اس نے عورت اورمرد کو برابر کا مقام عطا کیا ۔ امید ہے ، اس اشکال کا ازالہ فرمانے کی زحمت گوارا کریں گے۔
جواب

یہ حدیث حضرت انس بن مالک ؓ کے واسطے سے مختلف کتبِ حدیث میں مروی ہے۔ مثلاً الجامع الصغیر للسیوطی(۶۳۰۶)،المعجم لابی یعلیٰ(۲۵۷)،مسندالفردوس للدیلمی (۴۷۴۶) وغیرہ۔ لیکن یہ ضـعیف ہے ۔ ا سی لیے علامہ البانی ؒ نے جب سیوطی ؒ کی الجامع الصغیر میں مذکورصحیح اور ضعیف احادیث کوالگ الگ کیاتو اس روایت کوانہوں نے ضعیف الجامع (۴۲۳۱) میں جگہ دی۔
اس کے الفاظ یہ ہیں :
کُلُّ شَیْئٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللہِ تَعَالیٰ حِجَابٌ اِلاَّ شَہَادَۃَ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ، وَدُعَاءَ الْوَالِدِ لِوَلَدِہِ
لیکن اس کے متن پر آپ نے جواشکال وارد کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان میں ’والد‘ کا اطلاق ماں باپ دونوں پر ہوتا ہے۔ اسی طرح ’ولد ‘ میں لڑکا اورلڑکی دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ اس لیے آپ نے دُعَاءَ الْوَالِدِ لِوَلَدِہِ کاجوترجمہ کیا ہے (باپ کی دعا بیٹے کے لیے) وہ درست نہیں ہے۔ اس کا درست ترجمہ یہ ہوگا ’ ماں باپ کی دعا اپنی اولاد کے لیے‘‘۔