جواب
(۱) مصر کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر متعدد ’خاندانوں ‘ نے حکم رانی کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ، جو خاندان حکومت کر رہا تھا وہ ’انیسویں خاندان‘ کے نام سے معروف تھا۔ اس کا زمانہ ۱۳۵۰ ق م سے ۱۲۰۵ ق م تک تھا۔ اس خاندان کے حکم رانوں میں رمسیس دوم اور منفتاح شہرت رکھتے ہیں ۔ رمسیس دوم نے ۱۲۹۲ق م سے ۱۲۲۵ ق م تک حکم رانی کی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مصر کے عظیم ترین حکمرانوں میں سے تھا۔ اس نے پورے ملک میں مختلف عمارتیں اور عبادت خانے بنوائے، اس بنا پر اسے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ اس کا زیادہ تر عرصۂ حکومت جنگ میں گزرا۔ حیثیوں نے شام کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔ رمسیس دوم تقریباً دو دہائیوں تک ان سے برسرِ پیکار رہا۔ یہاں تک کہ اس کا قبضہ بحال ہوگیا۔ پھر دونوں میں مصالحت ہوگئی اور جنگ سے نجات ملی۔ اس نے فلسطین کو سرنگوں کیا۔ بلاد النہرین پر حملہ کرکے اس کے بڑے حصے کو فتح کرلیا۔ رمسیس نے اپنے زمانے میں نہ صرف یہ کہ بعض ان علاقوں پر اپنا قبضہ بحال کیا، جن پر دوسرے قابض ہوگئے ہیں بلکہ اپنے حدود مملکت میں بھی اضافہ کیا۔ اس کے عہد میں مصر کے حدود جنوب میں جنادل اربعہ سے قریب نباتا تک پہنچ گئے تھے اور بلاد النوبۃ تک اس کا اقتدار وسیع ہوگیا تھا۔ اس کے زمانے میں تنیس ایک عظیم ترقی یافتہ شہر بن گیا تھا۔ وہاں رمسیس نے ایک عظیم الشان معبد تعمیر کروایا تھا۔ رمسیس نے سمندر کے کنارے کنارے متعدد نئے شہر بسائے تھے۔ ان میں سے ایک شہر عین شمس کے شمال میں تھا، جس کے آثار اب ’تلّ الیہودیہ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔
رمسیس دوم کا جانشین اس کا بیٹا منفتاح ہوا۔ اس نے ۱۲۱۵ق م تک حکومت کی۔ اس نے بھی اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے متعدد جنگیں کیں ۔ فلسطین اور شام میں ہونے والی بغاوتوں کو کچلا۔ لوبیوں کے حملوں کا جواب دیا، جو مغرب کی جانب سے مصر پر یلغار کر رہے تھے۔ منفتاح بھی عمارتوں کا شوقین تھا۔ اس نے بھی متعدد عمارتیں اور عبادت خانے تعمیر کیے۔ کہا جاتا ہے کہ منفتاح ہی وہ فرعونِ موسیٰ ہے، جس کے عہد ِ حکومت میں بنو اسرائیل مصر سے نکلے تھے۔
یہ معلومات مصرکی تاریخ پر ایک عربی کتاب تاریخ مصر الی الفتح العثمانی تالیف عمر الاسکندری، مطبعۃ المعارف مصر، ۱۹۲۱ ص ۴۵-۵۴ سے حاصل کی گئی ہیں ۔ مصر کی قدیم تاریخ پر میں نے اور بھی کتابیں دیکھی ہیں ، جو عربی زبان میں مصر سے شائع ہوئی ہیں ۔ مثلاً تاریخ مصر، ہند اسکندر عمّون، مطبعۃ المعارف مصر، ۱۹۱۳ء مصر، ڈاکٹر نجیب میخائیل ابراہیم، دار المعارف، مصر، ۱۹۵۸ء علی ہامش التاریخ المصری القدیم، عبد القادر حمزۃ، مطابع الشعب مصر ۱۹۵۷ء مصر و مجدہا الغابر، مرجربت مری، ترجمہ محرم کمال، لجنۃ البیان العربی ۱۹۵۷ء، موخر الذکر کتاب Margaret A. Murray کی انگریزی کتاب The Splendour that was Egypt کا ترجمہ ہے۔
اوپر جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں خاندان کا اقتدار مصر کے علاوہ اطراف کے علاقوں فلسطین، شام اور جزیرہ نمائے سینا پر بھی تھا۔ البتہ مسلسل جنگوں کے نتیجے میں حدود ِ مملکت میں کمی اور زیادتی ہوتی رہتی تھی۔ اس بنا پر عین ممکن ہے کہ مصریوں کا اقتدار جزیرہ نمائے سینا کے کچھ شمالی حصوں پر بھی رہا ہو اور کچھ جنوبی حصوں پر بھی۔ مولانا مودودیؒ نے سورۂ اعراف کی تفسیر میں جزیرے کے شمالی حصے پر اور سورۂ قصص کی تفسیر میں اس کے جنوبی حصے پر اہلِ مصر کے اقتدار کی بات کہی ہے۔
(۲) مصر اور فلسطین کے درمیان آمد و رفت کے دو راستے ہیں ۔ ایک خشکی کا راستہ، جو مشرق کو جاتا ہے۔ اس کی مسافت کم ہے۔ اسی راستے سے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد ان کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے خاندان کے ساتھ مصر پہنچے تھے۔ دوسرا راستہ وہ ہے، جو بحر قلزم کی شاخ خلیج سویز کے کنارے کنارے جزیرہ نمائے سینا کے جنوب میں جاتا ہے۔ پھر صحرائے سینا پہنچ کر شمال کی طرف مڑکر فلسطین پہنچتا ہے۔ یہ اول الذکر راستے کے مقابلے میں کافی طویل ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکلتے ہوئے اسی راستے کو اختیار کیا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مختصر اور معروف راستے کو چھوڑ کر طویل اور زحمت طلب راستہ کیوں اختیار کیا، جب کہ اس کے درمیان دریا بھی پڑتا تھا؟ مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے: ’’غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام صحرا کے صاف راستے سے سینا کی طرف جانا چاہتے ہوں گے۔ مگر ایک طرف مصر کی فوجی چھاؤنیوں سے بچنے کی کوشش اور دوسری طرف فرعون کے تعاقب نے ان کو جبل ضفون کے قریب پہنچادیا…‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۷۶ کا مقابل صفحہ)
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے اس کی بہت اچھی توجیہ کی ہے۔ انھوں نے لکھاہے: ’’خدائے تعالیٰ کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوا کہ وہ خشکی کی راہ چھوڑ کر دور کی راہ اختیار کریں اور قلزم کو پار کرکے جائیں …واقعات رونما ہوجانے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ اس راہِ حق کو حق تعالیٰ نے اس لیے ترجیح دی کہ خشکی کی راہ سے گزرنے میں فرعون اور اس کی فوج سے جنگ ضرور ہوجاتی، کیوں کہ انھوں نے بنی اسرائیل کو قریب ہی آ لیا تھا اور اگر دریا کا معجزہ پیش نہ آتا تو فرعون بنی اسرائیل کو واپس مصر لے جانے میں کام یاب ہوجاتا اور چوں کہ صدیوں کی غلامی نے بنی اسرائیل کو بزدل اور پست ہمت بنادیا تھا، اس لیے وہ خوف اور رعب کی وجہ سے کسی طرح فرعون کے ساتھ جنگ پر آمادہ نہ ہوتے۔‘‘ (قصص القرآن، ج۱، ص ۴۲۳)
وہ کون سا دریا ہے، جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے ساتھ عبور کیا تھا اور فرعون اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اس میں غرق ہوگیا تھا، بائبل میں اس کا نام بحرِ قلزم مذکور ہے۔ اسے بحرِ احمر بھی کہتے ہیں ۔ انگریزی میں وہ RED SEA کہلاتا ہے۔ اس کا جغرافیہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے لکھا ہے: ’’دراصل یہ بحرِ عرب کی ایک شاخ ہے، جس کے مشرق میں سر زمین عرب واقع ہے اور مغرب میں مصر۔ شمال میں اس کی دو شاخیں ہوگئی ہیں ۔ ایک شاخ (خلیج عقبہ) جزیرہ نمائے سینا کے مشرق اور دوسری (خلیج سویز) اس کے مغرب میں واقع ہے۔ دوسری شاخ پہلی شاخ سے بڑی ہے اور شمال میں دور تک چلی گئی ہے۔ بنی اسرائیل اسی کے درمیان سے گزرے ہیں ۔ اس شاخ کے شمالی دہانے کے سامنے ایک اور سمندر واقع ہے، جس کا نام بحرِ روم ہے اور بحرِ احمر اور بحرِ روم کے اس شمالی دہانے کے درمیان تھوڑا سا خشکی کا حصہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے مصر سے فلسطین اور کنعان جانے والے کو بحرِ احمر عبور نہیں کرنا پڑتا تھا اور اس زمانے میں یہ راہ قریب ہی کی راہ سمجھی جاتی تھی اور بنی اسرائیل نے بہ حکمِ الٰہی یہ راہ اختیار نہیں کی تھی۔ اب اسی خشک زمین کو کھود کر بحرِ احمر (Red Sea) کو بحرِ روم سے ملادیا گیا ہے اور اس ٹکڑے کا نام نہر سویز ہے۔‘‘ (قصص القرآن، ج۱، ص ۴۳۵-۴۳۶)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس مقام سے دریا کو عبور کیا تھا، اس سلسلے میں مشہور مصری محقق عبد الوہاب نجّار نے لکھا ہے: ’’غرق فرعون اور عبور بنی اسرائیل کی جگہ متعین طور پر معلوم نہیں ہے۔ تورات میں بعض مقامات کے نام مذکور ہیں جن سے گزرتے ہوئے بنی اسرائیل مقام عبور تک پہنچے تھے، لیکن یہ مقامات آج معروف نہیں ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ خلیج سویز اس زمانے میں بحیرۂ مرہ تک وسیع تھی، یا اس کے بہت قریب تک تھی۔ اسی خلیج کو اس جانب سے بنی اسرائیل نے پار کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل نے خلیج سویز کو شمال میں اس جگہ سے جو ’عیون موسیٰ‘ کہلاتی ہے، پار کیا تھا۔‘‘ (قصص الانبیاء، ص ۲۰۳)
عبد الوہاب نجار نے ایک اٹلس کا بھی حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’میرے سامنے ایک تاریخی اٹلس ہے جسے الاستاذ محمد رفعت، مساعد مراقب تعلیم البنات فی وزارۃ المعارف مصر نے ۱۹۳۶ میں شائع کیا تھا۔ اس میں انھوں نے بنی اسرائیل کے دریا پار کرنے کا راستہ خلیج سویز اور بحیرۂ مرہ کے درمیان دکھایا ہے۔ انھوں نے دو خط کھینچے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیج سویز اس زمانے میں بحیرۂ مرہ سے ملی ہوئی تھی۔‘‘ نجار کہتے ہیں کہ ’’میرا خیال ہے کہ ان کی یہ بات صحیح ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ص: ۲۰۴)
مولانا مودودیؒ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ انھوں نے تفہیم القرآن، جلد دوم، ص۷۶ کے متوازی صفحے پر ایک نقشہ دیا ہے اور اس کے نیچے اس میں درج مقامات کی تشریح کی ہے۔ تشریح میں لکھا ہے:
’’بحیراتِ مرّہ: تلخ پانی کی وہ کھاڑیاں ، جو آج خلیج سویز سے فاصلے پر واقع ہیں ، مگر قدیم زمانے میں سمندر کا پانی ان سے جا ملتا تھا۔ غالباً بنی اسرائیل نے بحیرات مرّہ کو کسی مقام سے عبور کیا اور یہیں فرعون غرق ہوا۔‘‘
ابھی چند سال قبل ڈاکٹر شوقی ابو خلیل کا تیار کردہ مقامات قرآنی کا اٹلس دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوا ہے۔ اس کا عربی ایڈیشن میرے پیشِ نظر ہے۔ انھوں نے نقشے میں بحیرات مرہ سے بنی اسرائیل کا پار ہونا دکھایا ہے۔ البتہ تشریح میں لکھا ہے: ’’بنی اسرائیل نے خلیج سویز کے شمالی حصے کو (عیون موسیٰ کے مقام سے) یا بحیرات مرہ کو پار کیا تھا اور وہیں منفتاح (فرعون) غرق ہوا تھا۔‘‘ (اطلس القرآن، ص:۸۱)
بائبل میں فرعون کے غرق ہونے اور بنی اسرائیل کے پار کرنے کا مقام ’بحر قلزم‘ مذکور ہے۔ اسی کی متابعت میں بعض سوانح نگاروں نے بھی یہی لکھ دیا ہے۔ یہ غلط بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ خلیج سویز بحر قلزم ہی کی شاخ ہے۔ البتہ چوں کہ اس سے قارئین کو غلط فہمی ہونے کا امکان ہے، اس لیے واضح طور پر ’خلیج سویز‘ لکھنا چاہیے۔ یا بحرِ قلزم لکھ کر قوسین میں خلیج سویز کا اضافہ کردینا چاہیے۔
بہت سے لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ فرعون دریائے نیل میں غرق ہوا تھا۔ یہ تو قطعی غلط ہے۔
(۳) مدین بحرِ قلزم کی شاخ ’خلیج عقبہ‘ کے اطراف میں ، حجاز کے شمال اور فلسطین کے جنوب میں ، شام سے متصل واقع ہے۔ (قصص الانبیاء، ص۱۶۵، اطلس القرآن، ص۷۱)
یہ خیال صحیح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفر مدین کے لیے اس برّی راستے کو اختیار کیا ہوگا جو فلسطین کو مصر سے ملاتا ہے۔ یعنی وہ مصر سے نکل کر پہلے سینا کے مشرقی حصے تک پہنچے ہوں گے اور وہاں سے سینا کے جنوب کی راہ اختیار کرکے مدین پہنچے گئے ہوں گے۔ لیکن مدین میں دس سال قیام کرنے کے بعد جب وہ مصر واپس ہوئے تو یہ بات قطعی ہے کہ انھوں نے جنوبی سینا کا راستہ اختیار کیا۔ اس لیے کہ اسی سفر میں طور پر، جو جزیرۂ نمائے سینا کے جنوب میں واقع ہے، اللہ تعالیٰ نے انھیں شرفِ ہم کلامی بخشا اور منصب ِ نبوت سے سرفراز کیا تھا۔ بہ الفاظ دیگر حضرت موسیٰؑ کے مصر سے مدین جانے کا راستہ مختصر تھا اور مدین سے مصر واپس آنے کا راستہ طویل۔
بہ ہر حال مصر سے مدین جانے کا جو بھی راستہ اختیار کیا جائے، اس کی مسافت مصر سے صحرائے سینا تک پہنچنے کی مسافت سے زیادہ ہوگی۔ پھر اگر بائبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل کو بیابانِ سینا تک پہنچنے میں تین ماہ لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کی مسافت کو آٹھ دنوں میں کیسے طے کرسکتے ہیں ۔ جیسا کہ مفسرین اور سوانح نگاروں نے لکھا ہے؟ یہ سوال قابلِ غور ہے۔ لیکن اس سلسلے میں چند باتوں کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔
بائبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل کی تعداد علاوہ بچوں اور چوپایوں کے چھ لاکھ تھی۔ اتنا بڑا قافلہ کتنی سست رفتاری سے سفر کرے گا اس کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جب کہ فرعون کی غرقابی کے بعد تعاقب کا اندیشہ بھی ختم ہوگیا تھا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا سفر کر رہے تھے، انھیں اپنے گرفتار ہونے کا بھی اندیشہ رہا ہوگا، اس لیے بغیر کسی توقف کے انھوں نے مسلسل اپنا سفر جاری رکھا ہوگا۔ پھر بھی مدین پہنچنے کی مدت آٹھ دن کم معلوم ہوتی ہے۔
اطلس القرآن میں ان مقامات کی تفہیم کے لیے جو نقشہ دیا گیا ہے، اسے درج کیا جارہا ہے۔ اس سے امید ہے، ان مباحث کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔