جواب
اصطلاح شریعت میں ’ شہید ‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ۂ احد کے موقع پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے، اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی : اُدْفُنُوْہُمْ فِیْ دِ مَائِہِمْ۔ بخاری: ۱۳۴۶(انہیں بغیر غسل دیے دفن کردو)
احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے ۔ مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے۔(بخاری۶۵۳:) ایک حدیث میں ہے :’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے ۔‘‘ (بخاری: ۲۴۸۰، مسلم ۱۴۱:) ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ انہیں غسل دیا جائےگا۔
ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضا ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے ؟ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ اگر بدن کے اکثر اعضا موجود ہیں توغسل دیا جائے گا ، ورنہ نہیں ۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائےگا ۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے موقع پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا ۔تب اہل مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقع پر انہوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی ۔
بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے ، اسے دھونےسے انفیکشن پھیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہے اوراس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے ۔ اس طرح غسل ہوجائے گا ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے : الموسوعۃ الفقہیۃ ، کویت : ۱۳؍۶۲۔۶۴ (تغسیل المیت ) ۲۶؍۲۷۷(شہید)