میری اہلیہ اور چار بچے ہیں : تین بیٹیاں ہیں، جو شادی شدہ ہیں اور اپنی اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں اور ایک بیٹا ہے، جس کی عمر چھتیس (۳۶) برس ہے، لیکن وہ ذہن کا کم زور ہے، روز مرّہ کے کام تو خود کر لیتا ہے، لیکن زندگی گزارنے کے لیے دوسروں پر منحصر ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی کسی وکیل کے ذریعے وصیت تیار کراؤں کہ میرے پاس جو چار مکانات اور دو زمینیں ہیں وہ ان چاروں کے نام لکھوا دوں، تاکہ بعد میں وراثت کی تقسیم کے معاملے میں ان کے درمیان کوئی تنازع نہ ابھرے، البتہ وہ ان کے مالک میری موت کے بعد ہی بنیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ شریعت کے مطابق بیٹوں کو دو حصے اور بیٹیوں کو ایک حصہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ بیٹا والد ین کے انتقال کے بعد اپنی بہنوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا بیٹا خود دوسروں کا محتاج ہے۔ کیا ایسی حالت میں ہم وراثت چاروں کے نام برابر تقسیم کر سکتے ہیں ؟ یعنی ہر ایک کو چوتھائی حصہ ملے اور یہ جائیداد ان کو والدین کی موت کے بعد ملے۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا وصیت میں یہ لکھ سکتے ہیں کہ جو بہن اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرے گی وہ اس کے حصے کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور حسب ضرورت اس کے روز مرّہ خرچ کے لیے استعمال کرے گی۔
جواب
شریعت میں کسی کے مال و جائیداد کی دوسروں تک منتقلی کی تین صورتیں بتائی گئی ہیں :
۱۔ ہبہ(Gift)
۲۔ وصیت(Will)
۳۔ وراثت (Inheritance)
کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے مال میں سے کسی کو، جتنا چاہے، ہبہ کر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی اولاد کو ہبہ کر رہا ہے تو حکم دیا گیا ہے کہ عام حالات میں سب کو برابر ہبہ کرے، ان کے درمیان کچھ فرق نہ کرے۔، یہاں تک کہ جتنا لڑکے کو دے اتنا ہی لڑکی کو بھی دے۔ وراثت کے ضوابط اور مستحقین کے حصے متعین ہیں۔ کسی شخص کی بیوی، ایک لڑکا اور تین لڑکیاں ہوں تو اس کے انتقال کے بعد بیوی کا حصہ آٹھواں (12.5%) ہوگا، باقی اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا، دوسرے الفاظ میں لڑکے کو 35% اور ہر لڑکی کو% 17.5 ملے گا۔
وصیت کے بارے میں دو احکام دیے گئے ہیں : اول یہ کہ ورثہ کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ دوم یہ کہ ورثہ کے علاوہ کسی اور کے حق میں ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہیں کی جا سکتی۔ فقہا نے ورثہ کے حق میں وصیت کے جواز کی ایک صورت یہ بتائی ہے کہ اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے ورثہ بعد میں وراثت کی صحیح تقسیم نہیں کریں گے تو ہر ایک کے حق میں اتنی وصیت کر سکتا ہے جتنا وراثت میں اس کا حصہ ہو۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ آپ اپنے ورثہ( بیوی، ایک لڑکا، تین لڑکیاں )کے نام وصیت وراثت میں ان کے حصوں کے بہ قدر کر سکتے ہیں، برابر نہیں۔ اگر سب کو برابر دینا چاہتے ہیں تو وصیت کے بجائے انھیں ہبہ کرنا ہوگا، یعنی اپنی زندگی ہی میں ان کے حصے ان کے نام بہ طور ہبہ رجسٹرڈ کروادیں۔
آپ کی یہ بات درست نہیں ہے کہ شریعت نے بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں دوگنا اس لیے رکھا ہے کہ بیٹا والدین کے انتقال کے بعد اپنی بہنوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ شریعت نے عورت پر خرچ کی ذمہ داری عائد نہیں کی ہے، وہ جو کچھ پاتی ہے اس کے پاس بچا رہتا ہے، جب کہ مرد اپنے خاندان اور متعلقین کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسے اپنی بیوی، بچوں اور دوسرے زیر کفالت لوگوں پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر بھائی بڑا ہے اور بہنیں چھوٹی ہیں تو ان کی دیکھ بھال کرنا اس کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر وہ بڑی ہیں تو ان کی کفالت اس کے ذمے نہیں ہے۔
معذور بیٹے کا جو بھی حصہ متعین ہو، اس کی جو بہن بھی اسے اپنے ساتھ رکھے اور اس کی دیکھ بھال کرے، وہ اس حصے کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور حسب ضرورت اس میں سے اس پر خرچ کرے گی۔