بچپن میں بچوں کی پرورش کے بعض مسائل

ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ میرا بیٹا نو برس کا ہے۔رات کو میرے ساتھ ہی سوتا ہے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود علیٰحدہ نہیں سوتا۔جب کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بچے جب سات برس کے ہوجائیں تو ان کا بستر علیٰحدہ کردیا جائے۔

مسلہ درپیش یہ ہے کہ نو برس کے بچے کو اپنے ساتھ سُلانا شرعی اعتبار سے زیادہ بڑا جرم تو نہیں ؟ اس سے کہیں بچے کی تربیت پر غلط اثر تو نہیں پڑے گا؟ واضح رہے بچے کے والد نہیں ہیں۔

ایک دوسری خاتون کا سوال ہے کہ میری بیٹی کھانا بالکل نہیں کھاتی، اس لیے ماں کا دودھ نہیں چھوڑ پا رہی ہے۔ پانچ چھ مرتبہ دودھ چھڑانے کی کوشش کر چکی ہوں، لیکن کام یابی نہیں ملی۔ ایک مرتبہ ایڈمٹ بھی کرنا پڑا تھا۔ اس لیے مجبوراً پھر دودھ پلانا شروع کردیا۔ اب وہ تین برس کی ہونے والی ہے۔کیا بچے کو دو برس سے زیادہ دودھ پلانا جائز نہیں ہے؟براہِ کرم مذکورہ سوالات کے سلسلے میں شرع کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔

جواب

بچوں کی تربیت ایک سماجی ضرورت ہے اور دینی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت ہے۔ اس کا دائرہ روحانی و فکری تربیت کے ساتھ جسمانی تربیتوں پر محیط ہے۔ اسلام میں اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

مُرُوا أولادَكُم بالصَّلاةِ وهُم أبنَاءُ سَبعِ سِنِينَ وَاضرِبُوهُم عَلَيها وهُمْ أبنَاءُ عَشَرٍ، وَفَرِّقوا بَينهُم في المضاجعِ  (ابو داؤد: 495، احمد:6756)

ترجمہ:’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوجائیں اور اگر وہ دس برس کے بعد بھی نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارو۔ اور ان کے بستر جدا کردو۔‘‘

دس برس بچوں کی وہ عمر ہے جب وہ سن ِ شعور کو پہنچ جاتے ہیں اور ان کے اندر جنسی میلات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں بلوغت کا مرحلہ جلد آجاتا ہے۔ اسی لیے ایک بستر پر ایک سے زائد بچوں کو سونے سے منع کیا گیا ہے۔ علامہ مناویؒ نے لکھا ہے:

حُذِّرُوا مِن غَوائلِ الشَّھوۃِ واِن کُنَّ اَخَوَاتٍ

(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: ۲؍۲۷۸)

’’ شہوت کے مفاسد سے بچانے کے لیے ایک بستر پر بچوں کو سونے سے منع کیا گیا ہے، چاہے وہ بہنیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ‘‘

یہی حکم والدین کے لیے بھی ہے کہ جب بچے دس برس کے ہوجائیں تو انہیں الگ سلائیں۔ اگر پہلے سے اس کی عادت ڈلوائیں تو دس برس ہونے تک وہ اس کے عادی ہوجائیں گے اور انہیں الگ سلانے میں زحمت ہوگی۔

رہی بچوں کے لیے ماں کا دودھ چھوڑنے کی مدّت تو وہ قرآن مجید میں دو سال بتائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالْوالِـدٰتُ يُـرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ(البقرۃ:233)

’’مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ ‘‘

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

حَـمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصَالُـهٗ فِىْ عَامَيْنِِ(لقمان:14)

’’اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔‘‘

ان آیات کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے یا بچی کو لازماً دو سال دودھ پلایا جائے۔ اگر اس مدت سے پہلے وہ کچھ کھانے لگے ہوں اور ان کی غذائی ضرورت پوری ہونے لگی ہو تو دو سال سے قبل ان کا دودھ چھڑایا جا سکتا ہے۔ اصلاً ان آیات میں مدّت ِرضاعت بیان کی گئی ہے، یعنی اگر اس مدّت کے اندر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پی لیا تو حرمت ِ رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ امام ابو حنیفہؒ نے احتیاطاً مدّتِ رضاعت ڈھائی سال قرار دی ہے۔ اسی طرح اگر ضرورت متقاضی ہو تو دو ڈھائی سال کے بعد بھی دودھ پلایا جا سکتا ہے۔

بعض فتاویٰ میں دو سال کے بعد بچے کو دودھ پلانے کو ناجائز اور حرام لکھاگیاہے۔یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی۔علامہ ابن قیم ؒاپنی کتاب ’تحفۃ المودود فی احکام المولود‘ میں لکھتے ہیں :

’’بچہ کم زور ہونے کی بنا پر اگر دو برس کے بعد بھی اس کو دودھ پلایا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس کے نتیجے میں حرمت وغیرہ کے احکام مرتّب نہیں ہوں گے اور نہ مطلّقہ ماں اس کی اجرت حاصل کرسکتی ہے۔‘‘(الفقہ الاسلامی وادلّتہ:۱۰؍۳۶)

عالم اسلام کے مشہور مفتی شیخ محمد صالح المنجد نے اس موضوع پر متعدد تائیدی فتاویٰ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ’’دو برس سے زائد دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس میں بچے کی مصلحت مدّ نظر رکھی جائے گی۔‘‘ (اسلام سوال و جواب، فتویٰ نمبر ۱۳۰۱۵۵)

بچے کا دودھ چھڑانے کی کوشش تدریجاً کرنی چاہیے۔ مدّتِ رضاعت پوری ہوتے ہی یک دم چھڑانے سے اس کی نفسیات پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور صحت متاثر ہوتی ہے۔دودھ کے ساتھ کچھ غذاؤں کا بھی معمول بنایا جائے اور بہ تدریج اس میں اضافہ کیا جاتا رہے تو بہ آسانی دودھ چھڑایا جا سکتا ہے۔

April 2025