بچہ اورمجنون پرزکوٰۃ کاوجوب؟

کیا کوئی بچہ یا مجنون اگرصاحبِ نصاب ہوتو اس کے مال میں سے زکوٰۃ اداکی جائے گی؟
جواب

اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ بچے اور مجنون کے مال میں زکوٰۃ نہیں ہے ، خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ۔ یہ رائے صحابہ وتابعین میں سے حضرت عمرؓ اوران کے صاحبِ زاد ے عبداللہؓ، حضرت علیؓ اور ان کے صاحب زادے حسنؓ، عائشہؓ ، جابر ؓ ، ابن سیرینؒ، مجاہدؒ، ربیعہؒ، ابن عیینہؒ اور ابوعبیدہؒ وغیرہ سے مروی ہے ۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے :
اَلاَ مَنْ وَلِیَ یَتِیْمًا لَہٗ مَالٌ فَلْیَتَّجِرْفِیْہِ، وَلاَ یَتْرُکُہٗ حَتّٰی تَاکُلُہُ الصَّدَقَۃُ (ترمذی۶۴۱)
’ ’ سن لو ، جو شخص کسی ایسے یتیم کا سرپرست ہوجس کے پاس کچھ مال ہو تووہ اسے تجارت میں لگادے ، اسے اپنے پاس رکھے نہ رہے، ورنہ وہ صدقہ میں پورا تلف ہوجائے گا‘‘۔
اس حدیث میں صدقہ سے مراد زکوٰۃ ہے ۔ زکوٰۃ مال پر واجب ہوتی ہے ۔ ولی زکوٰۃ نکالنے میں بچے اورمجنون کی قائم مقامی کرے گا ۔ اگروہ نہ نکالے تو بچے کے بالغ ہونے کے بعد اورمجنون کے صحت یاب ہونے کے بعد انہیں سابقہ مدت کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اورامام ثوریؒ وامام اوزاعیؒ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ تو واجب ہوگی، لیکن ولی پر اسے نکالنا واجب نہیں ، بلکہ بچہ جب بالغ ہوجائے اورمجنون جب صحت یاب ہوجائے تب وہ خود نکالیں گے۔
مذکورہ بالا حدیث ، جس سے استدلال کیاگیا ہے ، اس میں ضعف پایا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اس کی سند میں ایک راوی مثنیٰ بن الصباح کومحدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
صحابۂ کرام میں حضرت علی بن ابی طالبؓ اورحضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے اوریہی امام ابوحنیفہؒ کی بھی رائے ہے کہ بچے اورمجنون کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجنون جب تک اس کی عقل درست نہ ہوجائے اوربچہ، جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے ، احکام کے مکلّف نہیں ہیں ۔
(ابوداؤد۴۳۹۸، ۴۴۰۳، ترمذی۱۴۲۳، ابن ماجہ۲۰۴۲)