جواب
بچہ جب دوسال کا ہوجائے اورغذا استعمال کرنے لگے (خواہ وہ لڑکا ہویا لڑکی )تواس کا پیشاب بڑے شخص کی طرح ناپاک ہے۔ اگروہ کسی کپڑے میں لگ جائے تواسے دھونا ضروری ہے۔ اس کی دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے :
اِسْتَنْزِہُوْا مِنَ الْبَوْلِ ، فَاِنَّ عَامَّۃَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْہُ
’’پیشاب سے بچو، اس لیے کہ اس سے نہ بچنے پر قبر کا عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘
(دار قطنی ، مستدرک حاکم)
لیکن بچہ اگر ابھی دودھ پی رہا ہو(مدتِ رضاعت کے اندر ہو) اوراس نے غذا ابھی شروع نہ کی ہو تواس کے پیشاب کا کیا حکم ہے ؟ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے:
احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے کا پیشاب بھی بڑے شخص کی طرح ناپاک ہے ۔ اس سے پاکی حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اس لیے کہ حدیث میں پیشاب سے بچنے کا عمومی حکم ہے ۔اس میں کوئی استثنا نہیں ہے ۔ البتہ مالکیہ کہتے ہیں کہ دودھ پلانے والی عورت (خواہ ماں ہو یا دایہ) ، جو صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتی ہو، اگراس کے کپڑے یا بدن پربچے کا کچھ پیشاب یا پاخانہ لگ جائے تووہ قابل معافی ہے ، لیکن اگراس کی زیادہ مقدار لگی ہو توبہتر ہے کہ وہ اسے دھولے۔ شوافع اورحنابلہ اس معاملے میں لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں فرق کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ لڑکے نے پیشاب کیا ہو تو اس پر چھینٹے مارلینا کافی ہے ، لیکن اگر لڑکی نے پیشاب کیا ہو تواسے دھونا ضروری ہے ۔ ان کی دلیل وہ احادیث ہیں ، جن میں صراحت سے یہ فرق کیا گیا ہے ۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِیَۃِ وَیُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الْغُلاَمِ (ابوداؤد۳۷۸:)
’’لڑکی کے پیشاب سے (آلودہ کپڑا ) دھویا جائے گا اورلڑکے کے پیشاب سے (آلودہ کپڑے پر ) چھینٹے مارے جائیں گے۔‘‘
متعدد فعلی احادیث سے بھی اسی کا اشارہ ملتا ہے ۔ مثلاً ایک مرتبہ حضرت حسین بن علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں تھے کہ انہوں نے پیشاب کردیا ۔ اس موقع پر موجود حضرت لبابہ بنت الحا ر ث (ام المومنین حضرت میمونہؓ کی بہن)نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولؐ !آپ دوسرا کپڑا پہن لیں ، مجھے اپنی ازار د ے دیں ، میں اسے دھودوں ۔ آپ ؐ نے فرمایا : لڑکی پیشاب کرے تواسے دھویا جائے گا۔ لڑکا پیشاب کرے تواس پر چھینٹے مارنا کافی ہے۔ (ابوداؤد۳۷۵:) ایسی ہی روایت حضرت ابوالسمعؓسے بھی ، جوآپ ؐ کی خدمت کیا کرتے تھے ، مروی ہے ۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت حسن ؓ یا حضرت حسینؓ نے آپ ؐ کے سینے پر پیشاب کردیا ۔ میں اسے دھونے چلا تو آپؐ نے یہی بات فرمائی ۔ (ابوداؤد۳۷۶:)حضرت ام قیسؓ اپنے دوھ پیتے بچے کے ساتھ خدمتِ نبوی میں حاضرہوئیں اوراسے آپؐ کی گود میں بٹھادیا ۔اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا ۔ آپ ؐ نے پانی منگوایا ۔ اس پر پانی کے چھینٹے ما ر ے ، دھو یا نہیں ۔ (بخاری : ۲۲۳، مسلم: ۲۸۷)
اس موضوع کی تمام احادیث کو جمع کرکے ان کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بچہ خوا ہ لڑکا ہو یا لڑکی،اس کا پیشاب کپڑے میں لگ جائے تواسے دھونا چاہیے۔لڑکے کا پیشاب ہونے کی صورت میں محض چھینٹے مارلینا کافی نہیں ۔ بعض احادیث میں اس کے لیے ’رشّ ‘ اور ’ نضح ‘ کے الفاظ آ ئے ہیں ۔ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب اس پر ’پانی بہانا ‘ ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک لڑکے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر پیشاب کردیا :
فَدَعَا بِمَاءٍ فَاَتْبَعَہٗ بَوْلَہٗ وَلَمْ یَغْسِلْہٗ (بخاری : ۲۲۲، مسلم : ۲۸۶)
’’ آپ نے پانی منگوایا ، اس کے پیشاب پر بہادیا ۔ کپڑے کو(اچھی طرح) نہیں دھویا ۔‘‘
دوسری روایت میں وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ پینے والی عمر کا ایک لڑکا لایا گیا ۔ اس نے آپ کی گود میں پیشاب کردیا :
فَدَعَا بِمَا ءٍ فَصَبَّہٗ عَلَیْہِ (مسلم : ۲۸۶)
’’آپؐ نے پانی منگوایا اوراس پر انڈیل دیا ۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ’رشّ ‘ اور ’نضح ‘ کا مطلب بھی دھوناہے (محض چھینٹے مارلینا نہیں ہے) اور ’غسل ‘ کا مطلب کپڑے کورگڑ کر دھونا اورنچوڑنا ہے ۔لڑکے اورلڑکی کے پیشاب کودھونے کے معاملے میں احادیث میں جوفرق کیا گیا ہے ، فقہا نے ان کی حکمتیں بیان کی ہیں اورتوجیہیں کی ہیں ، ان کا یہاں تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بہرحال دونوں کے پیشاب کودھونے کی کوشش کرنی چاہیے۔