بڑھاپے ميں عبادات ميں کمي کي تلافي کيسے کي جائے

مثل مشہور ہے: ’’يک پيري و صد عيب۔‘‘ يعني ستّر اسّي برس کي عمر تک پہنچتے پہچنتے بہت سے ضعيف العمر حضرات طرح طرح کے امراض و مسائل سے دو چار ہوجاتے ہيں۔ ان ميں نسيان کا مرض بھي نہايت تکليف دہ ہے۔ بالخصوص نماز پنج گانہ کي ادائيگي کے وقت ايسا ہوتا ہے کہ رکعتوں کا شمار، قرآني آيات کي تلاوت اور ديگر اجزائے عبادت کا پورا ادراک نہيں رہ پاتا۔ بعض اوقات طہارت بھي مشکوک ہو جاتي ہے۔

ايسي صورت ميں علاج معالجہ کے باوجود اس نامکمل يا ناقص عبادت پر کيسے اس کے مکمل ہونے کي توقع کي جائے؟ عمر کي مختلف منزلوں ميں بعض وجوہ سے کئي وقت کي نمازيں اور روزے چھوٹ جاتے ہيں۔ ان کے کفارہ يا ادائيگي کي کيا صورت ہوگي؟ سنا ہے کہ پانچ وقت کي نمازوں کے وقت اگر قضاشدہ نمازوں کو يکے بعد ديگرے ادا کيا جائے تو اس طرح تلافي ہو سکتي ہے۔ کيا يہ بات درست ہے؟ جواب سے سرفراز کرکے ممنون فرمائيں۔

جواب

اللہ تعالي نے کائنات کا نظام اس طرح بنايا ہے اور اس ميں انسان کي تخليق اس طرح کي ہے کہ وہ پيدا ہوتا ہے تو کم زور اور دوسروں کے سہارے کا محتاج رہتا ہے۔ پلتا بڑھتا ہے تو اس کے قوي مضبوط ہو جاتے ہيں۔ وہ کڑيل نوجوان بنتا ہے۔ اس کے بعد ادھيڑ عمر کا ہوتا ہے۔ پھر اس کے قوي مضمحل ہونے لگتے ہيں، چناں چہ وہ دوبارہ اسي طرح نحيف و ناتواں اور دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوجاتا ہے جيسا اپنے بچپن ميں تھا۔ ہر شخص کے ساتھ يہ دورانيہ لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالي کا ارشاد ہے۔

اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ ضُعۡفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ ضُعۡفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّةٍ ضُعۡفًا وَّشَيۡبَةً يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ وَهُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡقَدِيۡرُ‏ (الروم: ۵۴)

” اللہ ہي تو ہے جس نے ضعف کي حالت سے تمھاري پيدائش کي ابتدا کي، پھر اس ضعف کے بعد تمھيں قوت بخشي، پھر اس قوت کے بعد تمھيں ضعيف اور بوڑھا کر ديا۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پيدا کرتا ہے۔ وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چيز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “

دوسري جگہ اللہ تعالي کا ارشاد ہے:

ثُمَّ نُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ​وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِكَيۡلَا يَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَيۡــًٔـا​ (الحج: ۵)

” پھر ہم تم کو ايک بچے کي صورت ميں نکال لاتے ہيں، پھر (تمھاري پرورش کرتے ہيں) تاکہ تم اپني پوري جواني کو پہنچو اور تم ميں سے کوئي پہلے ہي واپس بلا ليا جاتا ہے اور کوئي بدترين عمر کي طرف پھير ديا جاتا ہے، تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔‘‘

بڑھاپے کے امراض ہي سے ايک بڑا مرض نسيان کا ہے۔ آدمي پر ذہول اور غفلت طاري ہوجاتي ہے۔ اسے کچھ ياد نہيں رہتا۔ اس نے کھانا کھايا ہے يا نہيں ؟ دوا لي ہے يا نہيں ؟ قرآن کي تلاوت کي ہے يا نہيں ؟ نماز پڑھ رہا ہے تو کتني رکعتيں ہوئي ہے؟ اس طرح کے چھوٹے موٹے کام اور معمولي باتيں بھي ياد نہيں رہتيں۔ يہ صورت اس کے ليے بہت تکليف دہ ہوتي ہے۔ چوں کہ يہ مرض کي کيفيت ہے اس ليے اللہ تعالي کي جانب سے اس پر کوئي گرفت نہيں ہوگي، بلکہ اس کيفيت کے ساتھ انجام ديے گئے تمام اعمال اسي طرح مقبول ہوں گے جيسے آدمي صحت کي حالت ميں انھيں انجام ديتا تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ (ابن ماجہ: ۲۰۴۵)

”اللہ نے ميري امت سے غلطي، بھول چوک اور بالجبر ليے گئے کام کو معاف کر ديا ہے۔ “

نماز پڑھتے ہوئے آدمي کو ياد نہ رہے کہ کتني رکعتيں ہوئي ہيں، تو کم کو فرض کرکے نماز مکمل کرے۔ مثلًا اگر شبہ ہوجائے کہ تين رکعتيں ہوئي ہيں يا چار تو تين رکعتيں مان کر چوتھي رکعت پڑھے۔ اگر نسيان کا مزيد غلبہ ہو تو ايک تدبير يہ اختيار کي جاسکتي ہے کہ کسي کو اپنے ساتھ بٹھاليا جائے، کوئي بھول چوک ہوجائے تو وہ ياد دلاتا رہے۔

اگر بڑھاپے کي وجہ سے روزہ رکھنا آدمي کے بس ميں نہ ہو تو اجازت دي گئي ہے کہ وہ فديہ ادا کرے۔ ايک روزہ کا فديہ دو وقت کا کھانا ہے۔ قرآن ميں ہے : فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ (البقرة: ۱۸۴) غريبوں کو کھانا کھلايا جاسکتا ہے اور اس کي ماليت کے بقدر رقم بھي انھيں دي جاسکتي ہے۔

اگر کسي شخص کي بہت سي نمازيں چھوٹ گئي ہوں تو کيا اس کے ذمے ان کي قضا لازم ہے يا اس کوتاہي کي تلافي محض توبہ سے ہو جائے گي؟ اس سلسلے ميں زيادہ تر فقہا کہتے ہيں کہ چھوٹ جانے والي نمازوں کي قضا لازم ہے۔ اس کا طريقہ يہ ہے کہ آدمي اپني چھوٹي ہوئي نمازوں کا اندازہ لگائے، پھر اپني ہر فرض نماز کے بعد قضا نماز بھي پڑھ ليا کرے، يہاں تک کہ اسے تمام چھوٹي ہوئي نمازوں کے ادا ہو جانے کا ظن غالب ہو جائے۔ جب کہ بعض علما، جن ميں داود ظاہري، ابن حزم اور ابن عبد الرحمن الشافعيؒ خصوصيت سے قابل ذکر ہيں، کي رائے يہ ہے کہ چھوٹ جانے والي نمازوں کي قضا نہيں ہے۔ اس کوتاہي پر آدمي اللہ تعالي سے توبہ کرے اور ان کي تلافي کے ليے کثرت سے نوافل پڑھے۔