بگڑے ہوئے شوہر کی اصلاح کا صحیح طریقہ

میری شادی ایک جانے پہچانے خاندان میں ہوئی ہے۔ میری والدہ اور ساس بہت قریبی سہیلیاں تھیں ۔ پچیس سال سے ان کے درمیان تعلقات تھے۔ میرے والد کا انتقال میرے بچپن میں ہوگیا تھا۔ میرے بھائی نے میری کفالت اور تعلیم و تربیت کی، پھر میری شادی کے تمام مصارف برداشت کیے۔ شادی سے قبل میرے شوہر نے مجھے دیکھ کر اپنی رضا مندی دی تھی۔ شادی کے بعد کچھ عرصے تک میری سسرال والوں کے تعلقات میرے میکے والوں سے ٹھیک رہے۔ لیکن پھر میرے شوہر میرے میکے والوں سے چڑنے لگے۔ وہ اپنی بہن اور بہنوئی سے تو خوب ربط ضبط رکھتے ہیں ، لیکن میرے بھائی، والدہ اور دوسرے رشتے داروں سے نہ خود کبھی ملتے ہیں نہ فون پر ہی ان کی خیریت لیتے ہیں ۔ بل کہ ان کا مجھ سے ملنے کے لیے آنا بھی پسند نہیں کرتے۔ البتہ میرے ساتھ ان کا رویہ اچھا رہتا ہے۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ انھوں نے شادی کی سال گرہ پر مجھے لیپ ٹاپ کا تحفہ دیا۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں میرے حوالے کردیتے ہیں اور مجھے پوری آزادی ہوتی ہے کہ اس میں سے جو چاہوں خرچ کروں ۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتی ہوں ۔ جب میں وطن جاتی ہوں تو سسرال کے تمام رشتے داروں کے لیے تحائف لے کر جاتی ہوں ، لیکن میرے شوہر میرے میکے والوں کے لیے کوئی تحفہ دیں ، یہ تو دور کی بات ہے، پوچھتے تک نہیں کہ میں ان کے لیے کچھ لے کر جا رہی ہوں یا نہیں ۔ میں پہلی مرتبہ امید سے ہوئی تو میرے شوہر نے دباؤ ڈالا کہ میں اسقاط کر والوں ۔ میں تیار نہیں ہوئی۔ وضع حمل کے دن قریب آئے تو میں اپنے میکے چلی گئی۔ وہیں ایک بچی کی ولادت ہوئی۔ یہ خبر سن کر میرے بھائی، جو دوسری جگہ سروس کرتے ہیں ، وہ تو فوراً گھر پہنچ گئے، لیکن میرے شوہر ایک مہینے کے بعد آئے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بچی کی ولادت سے خوش نہیں ہوئے۔ میرے شوہر کی ایک بری عادت یہ ہے کہ وہ جب میرے ساتھ باہر نکلتے ہیں تو دوسری عورتوں کو یا پوسٹروں اور ہارڈنگس میں ان کے فوٹو دیکھ کر مختلف تبصرے کرتے رہتے ہیں ۔ میری بھنویں موٹی ہیں اور ہاتھوں اور پیروں میں بال ہیں ۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ انھیں یہ پسند نہیں ہے۔ کیا میں اپنی بھنویں پتلی کراسکتی ہوں ؟ اور ہاتھوں پیروں میں Waxing کرسکتی ہوں ؟ اپنے شوہر کے بارے میں جب سے مجھ پر ایک معاملے کا انکشاف ہوا ہے، میرا سارا سکون غارت ہوگیا ہے اور میں شدید ذہنی الجھن کا شکار ہوگئی ہوں ۔ یہاں تک کہ مجھے ڈپریشن کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ ایک مرتبہ میرے دل میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ میرے شوہر کے لیپ ٹاپ میں کیا کیا ہے؟ انھوں نے Password لگا رکھا تھا۔ میں نے اسے دریافت کیا، لیکن انھوں نے نہیں دیا۔ میں کوشش کرتی رہی، یہاں تک کہ میں نے اسے جان لیا۔ لیپ ٹاپ کھولا تو میں چکرا کر رہ گئی۔ انھوں نے انتہائی فحش فلمیں اور گندے گانے لوڈ کر رکھے تھے۔ میرے اللہ! میرے شوہر اتنے برے ہیں ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ میں نے ان سے خوب جھگڑا کیا۔ بالآخر انھوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ان گندے کاموں سے بچیں گے۔ میں نے ان پر اعتبار کرلیا، لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد میں نے پھر انھیں گندی تصویریں دیکھتے اور فحش گانے سنتے ہوئے پکڑ لیا۔ پھر تو میں بہت روئی اور انھیں بھی خوب سخت سست کہا۔ انھوں نے پھر وعدہ کیا کہ اب وہ خود کو سدھار لیں گے۔ اس صورت حال سے مجھے شدید کوفت ہونے لگی۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ؟ اپنے شوہر کی برائی میں کسی سے کر بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف اپنی بہن اور بھائی سے اپنی الجھن بیان کی، لیکن ان سے بھی مجھے کچھ رہ نمائی نہیں مل سکی۔ اب میرے شوہر میں ایک دوسری برائی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ وہ گھر میں ہر وقت ٹی وی آن رکھتے ہیں ۔ شام کو آفس سے آتے ہی ٹی وی چلا دیتے ہیں ، جو سوتے وقت تک برابر چلتا رہتا ہے، بل کہ بسا اوقات سوجاتے ہیں اور ٹی وی چلتا رہتا ہے۔ اس پر آنے والے پروگرام بہت زیادہ فحش اور عریاں تو نہیں ہوتے، لیکن انھیں اچھا پروگرام بھی نہیں کہا جاسکتا۔ میں انھیں منع کرتی ہوں تو وہ مانتے نہیں ۔ جھگڑنے پر آمادہ ہوجاتی ہوں تو کہتے ہیں کہ ٹی وی کو پیک کردیں گے یا بیچ دیں گے۔ کچھ دنوں قبل میں نے اپنا ایک فوٹوFacebook پر ڈال دیا۔ اسے صرف میرے قریبی رشتے دار یا کالج کے زمانے کے دوست و احباب دیکھ سکتے تھے، لیکن میرے شوہر کو معلوم ہوا تو انھوں نے مجھے بہت ڈانٹا اور میرے کردار پر شبہ کرنے لگے۔ میں نے صفائی دی اور بات نہ بڑھے، اس لیے ان سے معافی مانگ لی۔ میرے شوہر پنج وقتہ نمازوں سے غافل ہیں ۔ وہ صرف جمعے کی نماز پڑھتے ہیں ۔ میں کبھی ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہتی ہوں تو جواب دیتے ہیں کہ تم پڑھ لو، میں بعد میں پڑھ لوں گا۔ میں الحمد للہ! نمازوں کی پابندی کرتی ہوں ۔ قرآن مجید کی تلاوت اور اذکار کا اہتمام کرتی ہوں ۔ رات میں اٹھ کر تہجد بھی پڑھتی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں بھی کرتی ہوں کہ میرے شوہر کی عادتیں سدھار دے اور انھیں سچا پکا مسلمان بنا دے۔ لیکن میری دعائیں قبول ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہیں ۔ میں نے دل پر جبر کرکے اپنے اور اپنے شوہر کے بارے میں تفصیل سے اتنی باتیں آپ سے اس لیے لکھ دی ہیں ، تاکہ آپ ان کی روشنی میں مناسب رہ نمائی فرمائیں کہ ان حالات میں میں کیا کروں ؟ مجھے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں میری ازدواجی زندگی برباد ہوکر نہ رہ جائے۔ بہ راہِ کرم اپنے مشوروں سے نوازیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب

آپ کا مفصل خط پڑھا۔ جو کچھ آپ نے تحریر کیا ہے اس کی روشنی میں کچھ مشورے درج کر رہا ہوں ۔ جذباتی ہونے کے بہ جائے ان باتوں پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کیجیے۔ ان شاء اللہ آپ کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور آپ کی ازدواجی زندگی خوش گوار ہوجائے گی۔
۱- آپ نے لکھا ہے کہ آپ کے شوہر آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ ان کا رویہ آپ کے ساتھ اچھا رہتا ہے۔ انھوں نے سال گرہ پر آپ کو لیپ ٹاپ کا تحفہ دیا۔ آپ پر ان کے اعتماد کا مظہر یہ ہے کہ اپنی کمائی وہ آپ کے حوالے کردیتے ہیں اور آپ اپنی مرضی سے اسے خرچ کرتی ہیں ۔ وہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور آئندہ بھی آپ کو ساتھ رکھنے میں انھیں کوئی تردد نہیں ہے۔ محبت کا جواب محبت سے دینا چاہیے۔ حدیث میں زوجین کے درمیان محبت کو بے مثال قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’دو محبت کرنے والوں کے درمیان تعلق کا ذریعہ نکاح سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ۔‘
(ابن ماجہ: ۱۸۴۷)
۲- آپ کے والد صاحب کے انتقال کے بعد بڑے بھائی نے آپ کی سرپرستی کی۔ اس بنا پر آپ کی ان سے شدید محبت فطری ہے۔ لیکن آپ کے شوہر بھی ان کو اتنا ہی چاہیں جتنا آپ چاہتی ہیں ، یہ ناممکن بھی ہے اور غیر فطری بھی۔ آپ کا احساس ہے کہ آپ کے شوہر اپنی بہن اور بہنوئی وغیرہ سے گھل مل کر رہتے ہیں ، مگر آپ کے میکے والوں سے زیادہ ربط ضبط نہیں رکھتے، یہ چیز تو فطری ہے۔ اس پر آپ کی شکایت مناسب نہیں ہے۔
۳- سسرالی رشتے داروں سے اچھے تعلقات رکھنا شوہر اور بیوی دونوں کی ذمے داری ہے۔ قرآن کریم میں نسبی اور سسرالی دونوں رشتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور دونوں کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ (الفرقان: ۵۴) حدیث میں بھی سسرالی رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (مسلم: ۲۶۴۳، احمد: ۵؍۱۷۴) اگر آپ کے شوہر اپنی یہ ذمے داری نہیں نبھاتے تو وہ قصور وار ہیں ۔ آپ اپنے سسرالی رشتے داروں کا خیال رکھتی ہیں تو بہت اچھا کرتی ہیں ۔ اپنے وطن جائیں تو اپنے حقیقی اور سسرالی دونوں طرح کے رشتے داروں کے لیے تحائف لے کر جائیں ۔ وطن سے دور اپنے شوہر کے ساتھ رہیں توحقیقی اور سسرالی دونوں طرح کے رشتہ داروں کی فون کے ذریعے خیریت لیتی رہیں ۔ اگر آپ کے شوہر آپ کے خونی رشتے داروں کے ساتھ احترام سے نہیں پیش آتے، ان کی خیریت نہیں معلوم کرتے تو بدلے میں آپ ان کے خونی رشتے داروں سے اعراض نہ کیجیے۔
۴- شادی کے بعد اولاد ہونا اللہ کی طرف سے میاں بیوی کے لیے تحفہ ہوتا ہے۔ اولاد کی رغبت اور خواہش فطری طور پر ہر شخص کے دل میں ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کا حکم دیا گیا ہے۔ (البقرۃ: ۲۲۳) لیکن کوئی جوڑا اگر اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے بچے کی پیدائش کو کچھ دنوں کے لیے مؤخر کرنا چاہے تو اس کے لیے تدابیر اختیار کرسکتا ہے۔ البتہ مانع حمل تدابیر اختیار کرنا زیادہ موزوں ہے اس کے مقابلے میں کہ حمل ٹھہر جائے، پھر اس کا اسقاط کروایا جائے۔ اس سلسلے میں زوجین باہمی رضا مندی سے کوئی تدبیر اختیار کرسکتے ہیں ۔
۵- آپ کی ڈیلیوری آپ کے میکے میں ہوئی، اس لیے آپ کے بھائی کو تو موقع پر پہنچنا ہی چاہیے تھا۔ یہ ان کا فرض تھا، لیکن شوہر اگر کسی وجہ سے تاخیر سے پہنچے تو یہ چیز بھی باعث شکایت نہیں ہے۔ آپ کی شکایت اس وقت بجا ہوتی جب آپ اپنی سسرال میں ہوتیں ، اس کے باوجود شوہر آپ کی خبر گیری میں کوتاہی کرتے۔
۶- ہر باپ کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس کا اظہار الفاظ سے اور عمل سے کرتے ہیں اور کچھ لوگ سنجیدہ ہوتے ہیں ، جو کھل کر اظہار نہیں کرتے۔ اس لیے یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ آپ کے شوہر کو بچی سے اتنی محبت نہیں ہے، جتنی ہونی چاہیے۔
۷- آپ کا مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ آپ کی بھنویں موٹی ہیں یا ہاتھوں پیروں میں زیادہ بال ہیں ، اس لیے اگر آپ بھنویں پتلی کرلیں یا ہاتھوں پیروں میں Waxing کرلیں تو آپ کے شوہر آپ کو زیادہ چاہنے لگیں گے۔ آپ کے بیان کے مطابق انھوں نے آپ کو دیکھ کر شادی کی ہے۔ اگر آپ کی جسمانی ہیئت انھیں ناپسند ہوتی تو وہ شادی پر آمادہ ہی کیوں ہوتے۔ حدیث میں بھنویں پتلی کرنے سے صاف الفاظ میں منع کیا گیا ہے، اس لیے آپ خود یہ اقدام نہ کریں ۔ لیکن اگر آپ کے شوہر صاف لفظوں میں آپ سے ایسا کرنے کی خواہش اور اصرار کریں تو آپ ایسا کرسکتی ہیں ۔
۸- آپ کی الجھن اور ڈپریشن کا اصل سبب یہ ہے کہ آپ کے بیان کے مطابق آپ کے شوہر فحش فلمیں دیکھتے اور گندے گانے سنتے ہیں ۔ ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے انھیں ان چیزوں سے بچنا چاہیے اور اگر شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ ان چیزوں میں مبتلا ہوگئے ہیں تو ایک نیک بیوی کی حیثیت سے آپ کو انھیں ان کاموں سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن ان کی اصلاح کا مناسب طریقہ وہ نہیں ہے جو آپ نے اختیار کیا ہے۔ وہ جب تک گھر میں رہیں انھیں اتنی اپنائیت دیجیے کہ انھیں دوسری خرافات میں پڑنے کی خواہش ہی نہ ہو۔ ان کے سامنے شائستہ طریقے سے ان کاموں کی خباثت واضح کیجیے۔ انھیں بتایئے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان چیزوں سے سختی سے روکا ہے اور یہ کہ دوسرے انسانوں کی نظروں سے کتنا ہی چھپا کر ان کاموں کو کیا جائے، مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ امید ہے کہ آپ کی باتیں ضرور اپنا اثر دکھائیں گی اور ان کی اصلاح ہوجائے گی۔
۹- آپ نے کئی کام غلط کیے ہیں ، جنھیں آپ کو ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب عہد کیجیے کہ آئندہ ان سے بچیں گی۔ پہلا کام یہ کہ آپ نے اپنے شوہر کی جاسوسی کی، یہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے اپنے لیپ ٹاپ میں کیا کیا چھپا رکھا ہے؟ ان سے Password پوچھا۔ انھوں نے نہیں بتایا تو بھی آپ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں اور بالآخر اسے جان ہی لیا۔ اس طرح ان کی مرضی کے خلاف کام کیا اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ زوجین کے درمیان قریبی تعلق کی بنیاد باہمی اعتماد ہے۔ اگر کسی ایک کا دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جائے تو یہ تعلق دیرپا نہیں رہ سکتا اور خوش گواری باقی نہیں رہ سکتی۔ دوسرا غلط کام یہ کیا کہ اپنے شوہر کی خامیاں اور کم زوریاں اپنی بہن اور بھائی کو بتائیں ، حالاں کہ نہ آپ کے بھائی نے آپ سے اپنی بیوی کی کم زوریوں کا تذکرہ کیا، نہ آپ کی بہن نے آپ سے اپنے شوہر کی کم زوریاں بتائیں ۔ قرآن کریم میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ (البقرۃ: ۱۸۷) لباس زینت کا ذریعہ ہے اور جسم کے عیب کو بھی چھپاتا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے عیوب کسی اور پر ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے سامنے ہمیشہ اپنے شوہر کی صرف خوبیاں ہی بیان کیجیے، ان کی کوئی خامی ہرگز زبان پر نہ لایئے۔ واقعتہً کوئی کم زوری ہو تو اسے آپس میں محدود رکھ کر حل کرنے کی کوشش کیجیے۔ آپ نے تیسرا غلط کام یہ کیا کہ اپنا فوٹو فیس بک پر ڈالا اور اپنے شوہر کو نہیں بتایا۔ کوئی کام شوہر کو اندھیرے میں رکھ کر نہ کیجیے اور کوئی کام ایسا نہ کیجیے جس سے شوہر آپ پر شک کرنے لگ جائے۔ ان کا ڈانٹنا درست تھااور آپ نے اپنی غلطی مان لی، یہ اچھا کیا۔
۱۰- ہر مرد اور عورت اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس پر لازم ہے کہ دین کے تقاضوں پر عمل کرے اور برے کاموں سے حتی الامکان اپنے کو بچائے۔ کوئی دوسرا شخص خواہ اس کا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، اس کے گناہوں کا اس پر کچھ وبال نہ ہوگا۔ قرآن کریم میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا زندگی بھر کافر رہا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کی موت حالت ِ کفر میں ہوئی۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کو ایمان لانے کی توفیق نہیں ہوئی تو اس کا وبال ان پیغمبروں پر نہیں آیا۔ مصر کا بادشاہ فرعون بڑا ظالم و جابر اور اللہ کا نافرمان تھا۔ اس کی بیوی آسیہ کو ایمان کی توفیق ملی تو فرعون کے کفر نے ان کا کچھ نہ بگاڑا۔ آپ اپنی ذاتی حیثیت میں اگر دین کے تقاضوں پر عمل کر رہی ہیں تو مطمئن رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوگا اور آخرت میں اس کا اچھا بدلہ عطا کرے گا۔
۱۱- شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے سے بڑا قریبی رشتہ ہوتا ہے۔ دونوں کی ذمے داری ہے کہ نہ صرف دنیوی معاملات میں ایک دوسرے کا بھلا سوچیں ، بل کہ دین پر چلنے کے معاملے میں بھی ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ کسی سے کوتاہی ہو تو دوسرا محبت اور دل سوزی کے ساتھ اسے سمجھائے۔ ایک حدیث میں بڑے اچھے انداز میں یہی بات کہی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’اللہ اس مرد پر رحم کرے جو رات میں اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھائے اور دونوں نماز پڑھیں اور اللہ اس عورت پر رحم کرے جو رات میں اٹھے اور اپنے شوہر کو اٹھائے اور دونوں مل کر نماز پڑھیں ۔‘ (ابو داؤد: ۱۳۰۸) آپ اپنے شوہر کو دین کے راستے پر چلانا چاہتی ہیں ، یہ بڑی اچھی کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو اس کا اجر عطا کرے گا۔
۱۲- کسی دوسرے شخص کو خواہ وہ شوہر ہو یا کوئی اور، دین کی دعوت دینے، اچھے کاموں کی طرف مائل کرنے اور برے کاموں سے روکنے میں حکمت کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘‘ (النحل: ۱۲۵) حکمت یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اس وقت نہ ٹوکا جائے جب وہ کسی برائی کا ارتکاب کر رہا ہو۔ کیوں کہ اس صورت میں اس کا زیادہ امکان رہتا ہے کہ وہ اس برائی پر جم جائے اور اس کے اندر ضد پیدا ہوجائے۔ اس کی بہ جائے کسی مناسب وقت اسے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
۱۳- بری عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتیں اور نشے کی لت لگ جائے تو اس سے چھٹکارا دشوار ہوتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سگریٹ، گٹکا اور شراب وغیرہ سے صحت کو نقصان ہوتا ہے، لیکن اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے عادی ہوتے ہیں ۔ ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ پر غیر شائستہ پروگراموں کو دیکھنے کی بھی بعض لوگوں کو لت ہوتی ہے، جو شراب نوشی کی طرح چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ اس میں مبتلا لوگ قابل رحم ہوتے ہیں ۔ حکمت کے ساتھ اپنے شوہر کی بری عادتوں کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹی وی؍ کمپیوٹر وغیرہ پر دیکھنے کے لیے بہت سے اچھے چینل؍ پروگرام موجود ہیں ۔ قرأت، نعت، دینی پروگراموں کی آڈیو؍ ویڈیو سی ڈیز وغیرہ بھی پائی جاتی ہیں ۔ ان پروگراموں کو انٹرنیٹ سے بھی فری ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ ہوسکے تو ان چیزوں میں اپنے شوہر کو مصروف رکھنے کی کوشش کیجیے۔ بری عادتوں میں پڑنے کی وجہ سے ہی آدمی اچھے کاموں سے دور ہوجاتا ہے۔ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے، ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا جائے، انھیں اپنے یہاں مدعو کیا جائے، ان کے یہاں جایا جائے تو بھی اچھے کاموں کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے۔
۱۴- آپ اپنے شوہر کی اصلاح میں کام یاب ہوسکتی ہیں ۔ ذرا سوچیے: جب آپ نے ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہا تو انھوں نے کہا: تم پڑھ لو، میں بعد میں پڑھ لوں گا۔ وہ غصے میں یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں نہیں پڑھوں گا اور آپ ان کا کچھ نہ بگاڑ پاتیں ۔ آپ نے انھیں ٹی وی دیکھنے سے روکا تو انھوں نے کہا کہ ہم اسے پیک کردیں گے یا بیچ دیں گے۔ وہ غصے میں یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں ضرور دیکھوں گا۔
۱۵- ایک اہم بات یہ کہ ازدواجی زندگی میں خوش گواری اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے، جب آپ شوہر کو فائنل اتھارٹی کی حیثیت دیں اور گھر کے معاملات میں ان کی رعایت کریں ۔ وہ بہک رہے ہوں تو انھیں سنبھالیے، کوئی غلط کام کر رہے ہوں تو انھیں صحیح مشورہ دیجیے، لیکن گھر کا نظام شوہر کی مرضی سے چلنا چاہیے۔ آپ اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کریں گی یا اپنے آپ کو ان سے بالا تر دکھائیں گی تو گھر کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور آپ اپنا ذہنی سکون کھودیں گی۔ قرآن و حدیث میں اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ نے شوہر کو گھر کا منتظم بنایا ہے۔ جس طرح آفس میں ایک ’باس‘ ہوتا ہے، جس کا کہنا تمام لوگ مانتے ہیں ، اسی طرح گھر کا باس شوہر ہے۔ گھر میں اسی کی چلنی چاہیے۔ البتہ شوہر کو تمام معاملات میں بیوی سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے اور باہم رضا مندی سے تمام فیصلے ہونے چاہییں ۔
۱۶- آخری، لیکن حقیقت میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ اپنے لیے، اپنے شوہر کے لیے اور اپنے خاندان کے لیے اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کیجیے، وہ سننے والا ہے۔ ان شاء اللہ آپ کے حالات ضرور سدھریں گے اور آپ کی ازدواجی زندگی خوش گوار ہوجائے گی۔