جواب
رمضان کے روزوں کی فرضیت قرآن مجید سے ثابت ہے (البقرۃ: ۱۸۳) اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جو شخص بھی ماہِ رمضان پائے وہ اس میں روزہ رکھے (البقرۃ : ۱۸۵) اس کا شمار اسلام کے بنیادی ارکان میں ہوتا ہے (بخاری: ۸، مسلم: ۱۶) روزۂ رمضان کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ارشاد فرمایا:
مَنْ اَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ فِي غَیْرِ رُخْصَۃٍ رَخَّصَھَا اللّٰہُ لَہٗ لَمْ یَقْضِ عَنْہُ صِیَامَ الدَّھْرِ کُلِّہٖ وَ اِنْ صَامِہٖ۔
(ترمذی: ۷۲۳، ابو داود: ۲۳۹۶، ابن ماجہ: ۱۶۷۲)
’’جس شخص نے بغیر کسی عذر کے رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھا وہ اگر زندگی بھر روزہ رکھے تو اس کی قضا نہیں ہوسکتی۔‘‘
علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام بخاری نے اس کو اپنی صحیح میں کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان کے ترجمۃ الباب میں نقل کیا ہے۔ اس میں في غیر رخصۃ کی جگہ من غیر عذر ولا مرض کے الفاظ ہیں ۔
لیکن اسلام دین ِ فطرت ہے۔ اس نے انسانی کم زوریوں اور معذوریوں کی بھر پور رعایت کی ہے۔ چناں چہ روزے کو فرض قرار دینے کے معاً بعد یہ صراحت کردی گئی ہے:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط
(البقرۃ: ۱۸۴)
’’اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی مقدار پوری کرلے۔‘‘
اگلی آیت میں پھر اسی ٹکڑے کی تکرار ہے۔ وہاں ساتھ ہی یہ صراحت بھی کردی گئی ہے کہ اس رخصت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا مقصود بندوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے:
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز (البقرۃ: ۱۸۵)
’’اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
مریض کی تین حالتیں ہیں :
اول: اس کے لیے روزہ رکھنا ممکن نہ ہو۔ ایسے شخص کے لیے روزہ نہ رکھنا واجب ہے۔
دوم: وہ روزہ رکھ سکتا ہو، لیکن اس صورت میں اس کے مشقت میں پڑنے اور ضرر لاحق ہونے کا ظنِّ غالب ہو۔ ایسے شخص کے لیے روزہ نہ رکھنا مستحب ہے۔
سوم: اس کا مرض ایسا ہو کہ اس کے ساتھ روزہ رکھنے کی صورت میں اس کے مشقت میں پڑنے اور ضرر لاحق ہونے کا ظنِّ غالب نہ ہو۔
بعض اصحاب ِ علم کہتے ہیں کہ آخر الذکر حالت کے مریض کو بھی اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں محمد بن سیرینؒ، عطاءؒ اور امام بخاریؒ کے نام مذکور ہیں ۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حکمِ روزہ سے استثنا میں مطلق مرض کا تذکرہ کیا ہے۔ اس لیے عرف ِ عام میں جس کو بھی مریض کہا جاتا ہے اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ خواہ اس کا مرض جس نوعیت کا بھی ہو۔ لیکن جمہور علماء صرف ایسے مریض کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دیتے ہیں جو کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ روزہ رکھنے کی صورت میں تکلیف میں مبتلا ہوجانے، اس کے مرض میں اضافہ ہونے یا اس سے شفا یابی میں تاخیر ہوجانے کا ظنِّ غالب ہو۔
(احکام القرآن، ابن العربی مالکی، مطبعۃ السعادۃ مصر، ۱۳۳۱ھ، ۱؍۳۳، الجامع لاحکام القرآن، ابو عبد اللّٰہ القرطبی، الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۱۹۸۷ء، ۲؍۲۷۶)
علامہ ابوبکر جصاص رازی حنفیؒ نے مختلف فقہاء کے اقوال نقل کیے ہیں کہ روزہ نہ رکھنے کی اسی صورت میں اجازت ہے جب ضرر لاحق ہونے اور مرض بڑھنے کا اندیشہ ہو۔ دلیل میں انھوں نے ایک صحابی حضرت انس بن مالک کعبی قشیریؓ سے مروی ایک حدیث پیش کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اللہ نے مسافر کو نماز میں قصر کرنے اور روزہ نہ رکھنے اور حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔‘‘ (ابو داود: ۲۴۰۸، ترمذی: ۷۱۵، ابن ماجہ: ۱۶۶۷، البانیؒ نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے) اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حاملہ اور مرضعہ کو یہ رخصت اس وجہ سے دی گئی ہے کہ روزہ کی صورت میں انھیں اور ان کے بچے کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے جو لوگ ان کے حکم میں ہوں ان کے لیے روزہ نہ رکھنے کا جواز اندیشۂ ضرر سے متعلق ہوگا۔ (احکام القرآن، جصاص، المطبعۃ البہیۃ مصر،۱۳۴۷ھ، ۱؍۲۰۴)
رہا یہ سوال کہ چھو ٗٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امراض کی دو صورتیں ہیں ۔ بعض امراض وقتی اور عارضی ہوتے ہیں ، علاج کے بعد ان کے زائل ہوجانے کی امید ہوتی ہے، جب کہ بعض امراض کا زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے۔ ایسے مریض جنھیں اپنے مرض سے افاقہ پانے کی امید ہو انھیں قرآن نے دوسرے دنوں میں ان کی قضا کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن جن امراض کے زندگی بھر دور ہونے کی امید نہ ہو ان میں مبتلا مریضوں کو فدیہ ادا کرنا چاہیے۔ ایک روزہ کا فدیہ صدقۂ فطر کے برابر ہے۔
موسم گرما میں روزہ کا دورانیہ کم از کم بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے۔ شوگر کے جو مریض اتنا عرصہ بھوک برداشت نہیں کرسکتے، انھیں روزہ نہ رکھ کر بعد میں اس کی قضا کرنے کا ارادہ کرنے کے بہ جائے فدیہ ادا کرنا چاہیے۔