بینک انٹرسٹ کا مصرف

میرے پاس بینک انٹرسٹ خاصی مقدار میں جمع ہو گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا کیا کروں؟ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ اس کا مصرف کیا ہے؟

جواب

انٹرسٹ کسی بھی ذریعے سے حاصل ہو، کسی فرد سے معاملہ کے نتیجے میں یا بینک اکاونٹ میں رقم ہونے کی صورت میں، یہ ربا (سود) ہے، جسے قرآن و حدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَیعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا               (البقرة۲۷۵)

’’''اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کوحرام‘‘۔

یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً

(آل عمران۱۳۰)

’’''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ بڑھتا چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو۔''‘‘

سودی لین دین کی شناعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں مبتلا لوگوں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ِجنگ کیا گیا ہے (البقرة۲۷۹)۔ بینک میں جمع کی جانے والی رقم پر ملنے والا انٹرسٹ حرام ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈر کا اسے کسی بھی طرح اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔

بینک انٹرسٹ کو اکاؤنٹ ہی میں چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے۔ اس رقم کو نکلوا لینا چاہیے۔ اسے کسی غریب کو بلا نیتِ ثواب دیا جا سکتا ہے، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اسے یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ سود کی رقم ہے۔ انٹرسٹ کی رقم پر زکوة عائد نہیں ہوتی۔