بین مذہبی شادی سے ہونے والے بچوں کا مسئلہ

 بین مذہبی شادی (Interfaith Marriage)کے نتیجے میں جو بچے پیداہوں، کیا ان کی مسلم والدہ انھیں اپنی سسرال والوں سے کیس لڑکر لے سکتی ہے؟ اور ان کی تربیت کے لیے انھیں اپنی ماں (بچوں کی نانی) کے گھر رکھ سکتی ہے؟ کیوں کہ اب وہ علیٰحدہ ہوچکی ہے۔ کیا وہ بچے غیرمسلم والد کی وجہ سے غیرمسلم یا نومسلم کہلائیں گے؟

جواب

یوں تو ملک میں مسلم مردوں اور عورتوں کی غیرمسلم عورتوں اورمردوں سے شادی کے اکّا دکّا واقعات پہلے بھی پیش آتےرہے ہیں، لیکن گزشتہ دنوں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی ریشہ دوانیاں، مسلمانوں کی نئی نسل کی دین سے بے خبری، تعلیم اور ملازمت کی جگہوں میں آزادانہ اختلاط ، دینی واخلاقی تربیت سے محرومی یا کمی اور مختلف وجوہ سے شادی میں تاخیر اس کے اہم اسباب ہیں۔ شرعی اعتبار سے کسی مسلمان لڑکے یا لڑکی کا غیر مسلم لڑکی یا لڑکے سے نکاح جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں صراحت سے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝۰ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ۝۰ۭ      (البقرۃ۲۲۱)

’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔‘‘

جومسلمان لڑکے اور لڑکیاں گناہ کے اس کام کا ارتکاب کربیٹھیں، انھیں مرتد کہہ کر ان سے یک سر لاتعلقی اختیار کرلینا درست رویہ نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بہت بڑا گناہ اور گھنائونا عمل ہے، لیکن ارتداد نہیں ہے۔ ارتداد کا تعلق عقیدہ کے انحراف سے ہوتا ہے ۔ جو لوگ اس گناہ کا ارتکاب کربیٹھیں، ان سے بعد میں بھی رابطہ رکھنے اور موقع ملنے پر انھیں سمجھانے بجھانے سے ،امید ہوتی ہے کہ اس گناہ کی شناعت ان پر واضح ہوجائے اور وہ علیحٰدگی اختیار کرلیں۔

کوئی مسلمان لڑکی اگر غیرمسلم لڑکے سے شادی کرلے اور اس سے بچے ہوجائیں، تو انھیں غیرمسلم فرض کرلینا اور انھیں ان کے حال پر چھوڑدینا ، یا غیرمسلم باپ کے زیر اثر دے دینا مناسب نہیں ہے۔ مسلمان عورت کو شش کرے تو اپنے بچوں کو مسلمان کی حیثیت سے پروان چڑھاسکتی ہے اور ان کے دلوں میں اسلامی عقائد راسخ کرسکتی ہے۔

اگرکسی مسلمان عورت کی کسی غیر مسلم مرد سے ازدواجی رشتہ میں رہنے کے بعد علیٰحدگی ہوچکی ہو تو وہ اپنے بچوں کو اپنی کسٹڈی میں لینے کے لیے قانونی کارروائی کرسکتی ہے ۔ اس کے لیے کسی ماہر وکیل کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ اگرعدالت سے اس کے حق میں فیصلہ ہوجائے تو وہ انھیں اپنے ساتھ یا اپنی ماں کے گھر رکھ سکتی ہے اور ان کی پرورش وپرداخت مسلمان کی حیثیت سے کرسکتی ہے۔