بیوی طلاق کا دعویٰ کرے، لیکن شوہر انکاری ہو

,

میری شادی کے بعد اپنے شوہر سے کبھی خوش گوار تعلقات نہیں رہے، برابر جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ پانچ برس قبل انھوں نے طلاق دے دی تھی، پھر رجوع کر لیا تھا۔ چھ ماہ قبل پھر اسی طرح ان سے جھگڑا ہوا، جس کے دوران انھوں نے طلاق دے دی۔ اس کے بعد خاندان والوں کے سمجھانے بجھانے پر رجوع کر لیا۔ ابھی ایک ہفتہ قبل پھر ایک بات پر وہ بہت زیادہ طیش میں آگئے، مجھے برا بھلا کہنے لگے، اس دوران میں انھوں نے طلاق دے دی۔ میں اپنے میکے آ گئی اور یہ سمجھنے لگی کہ تین طلاقیں پوری ہو گئی ہیں، اب ان سے رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ میرے دو بچے ہیں۔ لیکن میرے شوہر کہتے ہیں کہ انھوں نے طلاق نہیں دی ہے۔ وہ اس پر قسم کھانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں؟ میری رہ نمائی فرمائیں۔

جواب

ازدواجی رشتہ الفت و محبت کا ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث میں شوہر اور بیوی دونوں کو اللہ سے ڈرنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ شوہر سے کہا گیا ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرے اور بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ معروف میں شوہر کی اطاعت کرے اور اسے خوش رکھنے کی کوشش کرے۔ شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ خاندان میں انتشار پیدا کر دے اور میاں بیوی کے دلوں میں ایک دوسرے کے بارے میں بغض و نفرت بھر دے۔ اس لیے اس کے پھندے میں پھنسنے سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔

اگر زوجین میں کسی طرح بھی نباہ نہ ہو پا رہا ہو اور باہم اختلاف، تنازعات اور جھگڑے کی وجہ سے زندگی مستقل عذاب میں ہو تو طلاق نکاح کو ختم کرنے کا ایک معقول اور سنجیدہ ذریعہ ہے، لیکن وہ بیوی کو قابو میں کرنے کا ہتھیار نہیں ہے۔ بعض نادان لوگ بات بات پر طلاق کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی غصے میں بے قابو ہو کر طلاق دے ڈالتے ہیں، پھر بعد میں انھیں پچھتاوا ہوتا ہے۔

اگر زوجین میں جھگڑا بہت زیادہ بڑھ جائے تو دونوں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، ان کی عقلیں ماؤف ہو جاتی ہیں، انھوں نے ایک دوسرے کو کیا کہا اور اس سے کیا سنا؟ اس کی کچھ خبر نہیں رہتی اور بعد میں بھی کچھ یاد نہیں آتا۔ اس لیے ہر صورت میں غصے کو قابو میں رکھنا چاہیے۔

اگر شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق کے معاملے میں اختلاف ہو جائے۔ بیوی کہے کہ شوہر نے طلاق دے دی ہے، لیکن شوہر اس سے انکار کرے تو اگر بیوی کے پاس طلاق کا کوئی پختہ ثبوت ہے تو اس کی بات مانی جائے گی اور طلاق واقع ہونے کا فیصلہ کر دیا جائے گا، لیکن اگر ثبوت نہیں ہے تو شوہر سے قسم دلوائی جائے گی۔ اگر وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اللہ کے رسولﷺ نے کسی بھی تنازعے کی صورت میں فیصلہ کرنے کی یہی تدبیر بتائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

البَیَّنَةُ عَلَی المُدَّعِی وَ الیَمِینُ عَلَی مَن أنکَرَ. (السنن الصغریٰ للبیہقی: 3387، سنن دارقطنی: 4311)

’’دعوی کرنے والے پر ثبوت پیش کرنے کے ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ثبوت پیش نہ کر سکے تو انکار کرنے والے سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ ‘‘

حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺنے کوئی ثبوت نہ ہونے پر مدّعیٰ علیہ سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا تھا۔ (بخاری: 2514، مسلم: 1711)

اس حدیث کی تشریح میں امام نوویؒ نے لکھا ہے:

’’ اس حدیث سے احکام شریعت کے بارے میں ایک اہم اصول ملتا ہے۔ وہ یہ کہ کسی انسان کی کوئی بات محض اس کے دعوے پر قبول نہیں کی جائے گی، بلکہ اسے ثبوت پیش کر نہ ہوگا، یا جس شخص کے خلاف دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ اسے مان لے۔ اگر ثبوت نہ ہو تو مدّعیٰ علیہ سے قسم دلوائی جائے گی۔ ( شرح مسلم للنووی، کتاب الاقضیۃ، باب الیمین علیٰ المدّعیٰ علیہ، 4 ؍ 12، حدیث نمبر: 1711)

طلاق کے معاملے میں شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف ہوجائے تو اس میں بھی اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔