جواب
شادی کے بعد شوہر پر بیوی کے تعلق سے جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ رہائش کے لیے گھر فراہم کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّط (الطلاق:۶)
’’ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو اور انھیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ۔‘‘
یہ گھر ایسا ہوناچاہیے جہاں بیوی کو پوری آزادی حاصل ہو، وہ اپنے مال و اسباب کے سلسلے میں بے فکر ہو اور شوہر کے ساتھ بے تکلف رہ سکے۔ اگر آدمی صاحب ِ حیثیت ہو اور اس کے حالات اجازت دیتے ہوں تو اسے بیوی کے لیے علیٰحدہ مکان فراہم کرنا چاہیے۔ عورت شوہر سے اس کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اگر حالات سازگار نہ ہوں تو بڑے مکان کے ایک حصے کو عورت کے لیے خاص کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ بیوی کا تعلق اصلاً شوہر سے ہوتاہے۔ سسرال کے لوگوں کی خدمت بیوی کی ذمے داری نہیں ہے۔
یہ تو مسئلے کا قانونی پہلو ہے۔ اخلاقی اعتبار سے بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے رشتے داروں کا خیال رکھے، ان کے ساتھ احترام اور محبت سے پیش آئے اور شوہر کے رشتے داروں کو بھی چاہیے کہ اس کی بیوی کے ساتھ اپنائیت کا مظاہرہ کریں ، تبھی باہمی تعلقات خوش گوار رہ سکتے ہیں ۔
ایسا مشترکہ خاندانی نظام، جس میں بیوی بری طرح جکڑی ہوئی ہو، اسے شوہر کے ساتھ بے تکلف رہنے کی مطلق آزادی نہ ہو اور سسرال میں اس کی حیثیت بے زبان خدمت گزار کی ہو، اسلام کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔