دیکھا گیا ہے کہ بہت سے مسلمان بیوی کی معمولی کوتاہیوں پر اور اکثر ساس کی شکایت پر اس کی پٹائی کر دیتے ہیں اور جب انھیں اس سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کن صورتوں میں بیوی کی پٹائی کی جا سکتی ہے؟ اور کن صورتوں میں نہیں کی جا سکتی؟ کیا پٹائی کے سوا دیگر ہلکی تدابیر اختیار نہیں کی جا سکتیں؟براہِ کرم اس سلسلے میں صحیح رہ نمائی فرمائیں۔
جواب
گھریلو تشدّد (Domestic Voilence)موجودہ دور کا ایک عالمی مظہر ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں، خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر یا پس ماندہ، ہر جگہ اس کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ خواتین اپنے شوہروں یا ساتھ میں رہنے والے رفقاء (Partners)، یا گھر کے دیگر افراد کے ذریعے تشدّد کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ تشدّد جسمانی بھی ہوتا ہے، ذہنی و نفسیاتی بھی اور زیادتی کے دیگرحربے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے اور مختلف ممالک میں اس کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں، لیکن گھریلو تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور عورتیں برابر ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
افسوس کہ گھریلو تشدد مسلم معاشرہ میں بھی عام ہے۔ مسلمان گھروں میں خواتین اپنے شوہروں اور سسرال کے دیگر افراد کی جانب سے تشدد کا سامنا کرتی ہیں اور مزید افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے جواز کے لیے مذہبی سند پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں عورتوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ قرآنی تعلیمات کا مطالعہ صحیح تناظر میں نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
قرآن مجید میں ہے
وَالّتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ۰ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا (النساء۳۴)
’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدہ رہو اور انھیں مارو۔ پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کرنے لگیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے، جو بڑا اور بالا تر ہے۔‘‘
اس آیت میں درج ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے
۱- یہاں جو احکام بیان کیے گئے ہیں ان کا تعلق عام حالات اور عام عورتوں سے نہیں، بلکہ یہ باتیں ان عورتوں کے سلسلے میں کہی گئی ہیں، جن کی جانب سے ’نشوز‘ (سرکشی) کا مظاہرہ ہو۔ ’نشوز‘ کا مطلب یہ نہیں کہ عورت سے کھانا پکانے میں تاخیر ہوجائے، سالن میں نمک تیز ہوجائے، یا وہ کسی مصروفیت کی وجہ سے کپڑوں پر پریس نہ کر سکے تو شوہر نام دار کی پیشانی پر بل پڑ جائے اور وہ اس پر ڈنڈے برسانا شروع کر دے، بلکہ نشوز یہ ہے کہ بیوی خود کو شوہر سے بالا تر سمجھنے لگے، اس کا کہنا نہ مانے، شوہر جو حکم دے اس کی خلاف ورزی کرے اور اس کے ساتھ بدزبانی سے پیش آئے۔
۲- سرکش عورتوں کی اصلاح کے لیے اس آیت میں تین تدابیر بیان کی گئی ہیں
اولاً انھیں سمجھایا بجھایا جائے۔
دوم خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدگی اختیار کی جائے۔
سوم ان کی پٹائی کی جائے۔
قرآن مجید کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تدابیر میں تدریج ملحوظ رکھی جائے، اس کے برعکس نہ کیا جائے۔
۳- بیویوں کا مارنے کا حکم نہیں دیا گیا کہ لازماً اس پر عمل کیا جائے، بلکہ کہا گیا ہے کہ اگر دیگر تدابیر سے کام نہ چلے تو بہ درجۂ مجبوری اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور اس تعلق سے بھی انتہائی احتیاطی تدابیر کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے ان کے ایک شاگرد نے پوچھا ’’مارنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘انھوں نے فرمایا’’جیسے مسواک سے مارنا۔(تفسیر طبری، دارالمعارف، مصر۸؍? ۴۱۳)
مارنے کا مقصد بیوی کو جسمانی اذیت پہنچانا یا اسے ذلیل و رسوا کرنا نہیں، بلکہ محض اس کی اصلاح و تادیب اور شوہر کی جانب سے ناراضی کا اظہار ہے۔
۴-مارنے کی اجازت محض سرکشی کا اندیشہ ہونے پر نہیں دی گئی ہے، بلکہ یہ بات اس وقت کہی گئی ہے جب واقعۃً عورت سرکش ہوجائے اور عملاً اس کی طرف سے نافرمانی کا اظہار ہونے لگے۔ اسی لیے آگے تاکید کی گئی ہے کہ اطاعت گزار عورتوں پر دست درازی کرنے اور انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کے بہانے نہ تلاش کیے جائیں۔
۵-آیت کے آخر میں صفاتِ الٰہی میں سے ’علیّ‘ اور ’کبیر‘ کا انتخاب بہت معنیٰ خیز ہے، یعنی اگر تمھیں عورتوں پر بالا دستی حاصل ہے تو یہ نہ بھولو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تم سے، بلکہ سب سے بڑی اور بالا تر ہے۔ اگر تم عورتوں پر بے جا ظلم کروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے انتقام لے سکتا ہے۔
ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگرچہ قرآن میں ناگزیر حالات میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن شریعت کا عمومی مزاج یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے گریز کیا جائے۔ عہدِنبوی میں ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنی بیویوں کی پٹائی کر دی۔ ان عورتوں نے امہات المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی۔ رسول اللہﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا
لَقَدۡ طَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ نِسَاءٌ کَثِیرٌ یَشۡکُونَ أَزۡوَاجَہُنَّ لَیۡسَ أُولٰئِکَ بِخِیَارِکُم۔ (ابو دائود۲۱۴۶، ابن ماجہ۱۹۷۵)
’’محمدؐ کے گھر والوں کے پاس بہت سی عورتوں نے چکر لگائے ہیں اور اپنے شوہروں کی شکایت کی ہے۔ یہ (مارنے والے) تم میں اچھے لوگ نہیں ہیں۔‘‘
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے مردوں کو کھلی چھوٹ نہیں دی ہے کہ وہ بات بے بات پر بیویوں کی پٹائی کردیا کریں، بلکہ مخصوص پس منظر میں بہت سی تحدیدات کے ساتھ اس کی اجازت دی گئی ہے۔ چنانچہ ان کی پابندی ضروری ہے، بلکہ شریعت کے عمومی منشا کو دیکھتے ہوئے اس سے احتراز ہی اولیٰ ہے۔