جواب
عام حالات میں اسلامی شریعت نے گھر کا خرچ اٹھانے کی ذمے داری شوہر پر عائد کی ہے اور بیوی کو اس سے آزاد رکھا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْط (النساء: ۳۴)
’’مرد عورتوں پر قوام (یعنی نگہبان) ہیں ۔ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
اس لیے اگر بیوی مال دار ہو تو بھی شوہر سے نان و نفقہ پانے کی مستحق ہے۔ لیکن ایسے حالات پیش آسکتے ہیں کہ بیوی کو کسب معاش کے لیے مجبور ہونا پڑے۔ مثلاً وہ مطلقہ یا بیوہ ہوجائے اور اس کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو، یا شوہر بے روزگار ہو اور باوجود کوشش کے کسب معاش میں کامیاب نہ ہو پارہا ہو، یا بچے زیادہ ہوں اور شوہر کی آمدنی کفایت نہ کرتی ہو۔ ان حالات میں عورت کسب معاش کے لیے جدو جہد کرسکتی ہے۔ اسلام نے اس کی اجازت دی ہے۔
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے عورت کا حق ِ ملکیت تسلیم کیا ہے۔ بعض دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں اسے یہ حق حاصل نہیں تھا۔ کافی جدو جہد کے بعد گزشتہ صدی میں وہ اس سے بہرہ ور ہوپائی ہے۔ بیوی جو کچھ کمائے اس میں اسے تصرف کرنے کی پوری آزادی ہے۔ شوہر کو حق نہیں کہ اس پر قبضہ جمائے، یا اپنی مرضی کے کاموں میں خرچ کرنے پر بیوی کو مجبور کرے۔ لیکن اگر بیوی اپنی خوشی سے اپنی کمائی گھر کے کاموں پر خرچ کرتی ہے، یا کچھ رقم شوہر کے حوالے کرتی ہے کہ اسے جس طرح چاہے خرچ کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بغیر کسی کراہت کے شوہر وہ رقم لے سکتا ہے اور اپنی پسند کی جگہوں پر خرچ کرسکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ ٰ اتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃًط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَـْیئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْٓـئًا مَّرِیْٓـئًاo (النساء:۴)
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دو۔ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کردیں تو تم خوشیکے ساتھ شوق سے کھا سکتے ہو۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر عورت کا حق ہے، جس کی ادائی شوہر پر لازم ہے۔ اگر وہ اس کے کچھ حصے سے بہ خوشی دستبردار ہوجائے تو شوہر اسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ یہی حکم عورت کی ملکیت کی دوسری چیزوں کا بھی ہوگا۔ اگر بیوی اپنی خوشی سے اپنی کمائی شوہر کو دے رہی ہے اور اس کی بے روزگاری کی صورت میں ملازمت کرکے گھر کا خرچ اٹھانے میں اس کی مدد کر رہی ہے تو کسی دوسرے کو اس پر اعتراض کرنے اور شوہر کو لعنت ملامت کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے!
عہد نبوی میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ مالی اعتبار سے خوش حال نہ تھے۔ ان کی اہلیہ حضرت زینبؓ دست کاری میں ماہر تھیں ، جس سے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں ۔ ان کی ساری کمائی شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی تھی اور صدقہ و خیرات کے لیے کچھ نہ بچتا تھا۔ ایک بار انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیاکہ میری ساری کمائی گھر ہی میں شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی ہے، اس بنا پر میں دوسروں میں کچھ صدقہ نہیں کرپاتی۔ کیا مجھے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا؟ آپؐنے جواب دیا:
اَنْفِقِی عَلَیْھِمْ، فَاِنَّ لَکَ فِیْ ذٰلِکَ اَجْرُ مَا اَنْفَقْتِ عَلَیْھِمْ ۔ (۱)
’’ہاں تم ان پر خرچ کرو، تمھیں اس کا اجر ملے گا۔‘‘
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہمارے لیے نمونہ موجود ہے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک مال دار خاتون تھیں ۔آں حضرت ﷺ سے نکاح کے بعد انھوں نے اپنی پوری دولت آپؐ کے قدموں میں ڈھیر کردی اور آپؐ اس میں سے خرچ کرتے رہے۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ بیوی کے مرنے کے بعد اس کی جائداد کس طرح تقسیم ہوگی تو اس کے تفصیلی احکام قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ۔ اگر بیوی لاولد ہو تو نصف جائداد کا وارث شوہر ہوگا(النساء: ۱۲)۔ بقیہ کی تقسیم دیگر مستحقین وراثت (ذوی الفروض، عصبہ وغیرہ) میں ان کے حصوں میں مطابق ہوگی۔ اس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی یا علماء سے معلوم کی جاسکتی ہے۔