جواب
عورت کا اصل میدان کار اور اس کا فرض منصبی، شوہر کی خدمت، گھر کی نگرانی اور بچوں کی پرورش ہے۔ حدیث میں ہے:
وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَ وَلَدِہٖ وَ ھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب قول اللّٰہ تعالٰی اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول، حدیث: ۷۱۳۸، و دیگر مقامات، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل حدیث: ۱۸۲۹)
’’عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگراں ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
اس کو متاثر کیے اور نقصان پہنچائے بغیر وہ ملازمت کرسکتی ہے، البتہ مشاہرہ کی شکل میں ، جو رقم اسے حاصل ہوگی اس کی وہ مالک ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ (النساء:۳۲)
’’جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے۔‘‘
مرد کا محض شوہر ہونا اس کو عورت کی آمدنی کا مستحق نہیں بنا دیتا۔ البتہ بیوی اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی آمدنی کا، جو حصہ چاہے، شوہر کو دے سکتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ آتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃًط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَـْیئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْئًا مَّرِیْـٓئًاo (النساء:۴)
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کردے تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔‘‘
اس آیت کی رو سے مہر عورت کا حق اور اس کی ملکیت ہے۔ پورا مہر یا اس کا کچھ حصہ عورت اپنی خوشی سے معاف کردے یا لینے کے بعد شوہر کو وقت ضرورت واپس کردے تو شوہر اسے اپنے کام میں لاسکتا ہے۔ یہی حکم عورت کو دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی رقموں کا ہوگا۔ لیکن عورت کی مرضی کے خلاف محض زور زبردستی اور دھمکی سے اس کی آمدنی پر قبضہ کرلینا شوہر کے لیے جائز نہ ہوگا۔