بے سند اقوال

ادبی کتابوں میں کئی مقولے اورعبارتیں باربار نظرآتی ہیں  (۱) الشعراء تلامیذ الرحمٰن (شعرا رحمٰن کے شاگرد ہیں ۔) (۲) یجوزللشعراء ما لایجوزلغیرھم(شعرا کے لیے وہ کچھ جائز ہے جو دوسروں کے لیے جائز نہیں  ہے۔) (۳) وللہ خزائن تحت عرشہ ومفاتیھاألسنۃ الشعراء(اللہ کے عرش کے نیچے خزانے ہیں اور ان کی کنجیاں شعرا کی زبانیں  ہیں ۔) بہ راہِ کرم یہ بتانے کی زحمت فرمائیں کہ کیا یہ احادیث کے ٹکڑے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پوری حدیثیں کیا ہیں اوران کی سند ی حیثیت کیا ہے؟اگر یہ لوگوں کے اقوال ہیں تو ان حضرات کا مبلغ علم کیا ہے؟
جواب

یہ سب بے سند اقوال ہیں ۔ ان کا انتساب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف کرنا حقیقت میں آپؐ پر بہتان باندھنا ہے۔ کتب ِ حدیث میں یہ جملے نہیں ملتے۔ غیرمحتاط لکھنے والے اپنی تحریروں میں انہیں نقل کردیتے ہیں ۔اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
شعراور شعرا کی اہمیت وفضیلت بیان کرنے کے لیے بے سند اقوال کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ۔ حکمت کی باتیں نثر میں  بھی بیان کی جاسکتی ہیں اور شعرمیں بھی۔ ایک حدیث میں یہی بات کہی گئی ہے۔حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
اِنَّ مِنَ الشِّعْرِلحِکْمَۃً (سنن ابن ماجہ۳۷۵۵)
’’بعض اشعارمیں حکمت کی باتیں  ہوتی ہیں ۔‘‘