بے وضو مصحف چھوٗنے کا مسئلہ

مولانا مودودیؒ نے آیت لاَ یَمَسُّہٗ اِلّاَ الْمُطَھَّرُوْنَ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ علامہ ابن حزمؒ نے مدلل لکھا ہے کہ بے وضو قرآن شریف کو چھو سکتا ہے۔ عرض ہے کہ ان کے کیا دلائل ہیں ؟ انھیں تفصیل سے بیان کردیں ، تاکہ مجھ جیسے معذور کے لیے گنجائش نکل آئے۔ میری عمر اس وقت ۹۲ سال چال رہی ہے۔ پیشاب کی کثرت اور دیگر عوارض قرآن کی تلاوت میں مانع ہوتے ہیں ۔ الحمد للہ میں حافظ ِ قرآن ہوں ۔ چالیس سال تراویح میں قرآن سناتا رہا ہوں ۔اب حافظہ بہت کم زور ہوگیا ہے۔ دیکھ کر پڑھنے پر مجبور ہوں ۔ واضح رہے کہ میں حیلہ نہیں تلاش کر رہا ہوں ۔ اسلام میں جب گنجائش ہے تو کیوں نہ اس پر عمل کیا جائے۔
جواب

فقہاء نے حدث ِ اکبر (جنابت، حیض، نفاس) اور حدث ِ اصغر (بے وضو ہونا) کی صورت میں مصحف چھونے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ابن ِ قدامہؒ فرماتے ہیں : داؤد ظاہریؒ کے علاوہ اور کسی فقیہ نے اس سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ ان کا استدلال قرآن کریم کی اس آیت سے ہے: لاَ یَمَسُّہٗ اِلّاَ الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ: ۷۹) (اسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا) اسی طرح ان کا استدلال بعض احادیث سے بھی ہے۔ مثلاً اللہ کے رسول ﷺ نے اہل ِ یمن کے لیے جو احکام حضرت عمرو بن حزمؓ کو لکھوا کر دیے تھے ان میں یہ حکم بھی تھا: لا یمس القرآن الا طاھر (کوئی شخص قرآن کو نہ چھوئے مگر طاہر)
اس حدیث کی تخریج دارمی اور دار قطنی نے کی ہے اور اسحاق بن راہویہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اسی مضمون کی حدیث حضرت ابن ِ عمرؓ سے بھی مروی ہے۔ اس کی تخریج طبرانی نے المعجم الکبیر میں کی ہے اور حافظ ابن ِ حجر نے التلخیص میں اس کی سند کو قابل ِ قبول (لا باس بہ) قرار دیا ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳۸/ ۵-۶)
مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر آیت ِ مذکور کی تفسیر کے ضمن میں مفصل بحث کی ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص: ۲۹۱-۲۹۵، سورہ واقعہ، حاشیہ: ۳۹) انھوں نے اس مسئلے میں مذکور روایات، صحابہ و تابعین کے اقوال و آراء اور فقہا کے مسائل تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔ آیت کے تعلق سے ان کا کہنا یہ ہے کہ اس میں ناپاکی کی حالت میں قرآن نہ چھونے کا حکم نہیں بیان کیا گیا ہے۔ آیت میں مطہرون سے مراد فرشتے ہیں ۔ البتہ وہ فرماتے ہیں : ’’زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ آیت یہ حکم دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے، مگر فحوائے کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کتاب کو صرف مطہرین ہی چھو سکتے ہیں ، اسی طرح دنیا میں بھی کم از کم وہ لوگ جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اسے ناپاکی کی حالت میں چھونے سے اجتناب کریں ۔ (تفہیم القرآن، ۵/۲۹۲)
آخر میں انھوں نے ظاہریہ کا مسلک بیان کردیا ہے: ’’ظاہریہ کا مسلک یہ ہے کہ قرآن پڑھنا اور اس کو ہاتھ لگانا ہر حال میں جائز ہے، خواہ آدمی بے وضو ہو، یا جنابت کی حالت میں ہو، یا عورت حیض کی حالت میں ہو۔ ابن حزمؒ نے المحلٰی (جلد اول، ص: ۷۷ تا ۸۴) میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے، جس میں انھوں نے اس مسلک کی صحت کے دلائل دیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ فقہاء نے قرآن پڑھنے اور اس کو ہاتھ لگانے کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں ، ان میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۵/۲۹۵)
اس موضوع پر علامہ ابن حزمؒ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ناپاکی کی حالت میں مس ِ مصحف ناجائز بتانے والی تمام روایات مرسل، غیر مسند یا مجہول یا ضعیف راویوں سے مروی ہیں ۔ دوسری جانب ایک صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے قیصر ِ روم ہرقل کو جو خط لکھا تھا اس میں ایک آیت بھی درج تھی۔ سورۂ واقعہ کی آیت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ مذکور حکم سے متعلق نہیں ہے۔ بل کہ اس میں مطہرون سے مراد فرشتے ہیں ، جیسا کہ حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت سعید بن جبیرؒ سے مروی ہے۔
علامہ ابن ِ حزمؒ نے آگے لکھا ہے کہ اگر مصحف کپڑے یا کسی اور چیز میں لپٹا ہوا ہو تو امام ابو حنیفہؒ جنبی اور بے وضو شخص کے لیے اسے چھونے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ امام مالکؒ اس صورت میں بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ البتہ اگر وہ کسی موٹے جزدان یا تابوت میں رکھا ہوا ہو تو جنبی اور بے وضو شخص کے لیے اسے اٹھانے کو جائز کہتے ہیں ۔ ابن ِ حزمؒ کہتے ہیں کہ اس فرق کی تائید نہ قرآن کی کسی آیت سے ہوتی ہے، نہ کسی صحیح یا کم زور حدیث سے، نہ اجماع یا قیاس سے۔
(المحلی، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، مصر ۱۳۴۷ھ، ۱/۸۱-۸۴)
علامہ ابن ِ حزمؒ اپنی بہت سی آراء میں منفرد ہیں ۔ ان کی یہ بات صحیح نہیں کہ ناپاکی کی حالت میں مس ِ مصحف کو ناجائز بتانے والی کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ ابتدا میں حضرت عمرو بن حزمؓ سے مروی جو حدیث نقل کی گئی ہے وہ اگرچہ مؤطا امام مالک میں مرسلاً مروی ہے، لیکن بعض دوسری سندوں سے اس کا متصل اور صحیح ہونا ثابت ہے۔ المحلی لابن حزم کے محقق علامہ احمد محمد شاکرؒ نے لکھا ہے: ’’حضرت عمرو بن حزمؓ سے مروی اس مکتوب ِ نبوی کے تمام الفاظ کی میں نے تحقیق کرنی چاہی تو توفیق ِ الٰہی سے میں اس میں کام یاب ہوگیا۔ میں نے پایا کہ مکمل روایت کی تخریج حاکمؒ نے المستدرک (جلد اول، ص ۳۹۵، طبع الہند) میں متصل سند سے کی ہے (احمد محمد شاکر نے پوری سند نقل کی ہے) اور روایت کا کچھ حصہ اسی سند سے نسائی، ابن ِ حبان، دار قطنی اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔ یہ سند صحیح ہے۔ الحمد للہ میں نے التحقیق لابن الجوزی پر اپنی شرح (جلد اول، ص: ۹۷، مسئلہ نمبر: ۴۲) میں سند کی صحت پر تفصیل سے بحث کی ہے۔‘‘ (المحلی، ۱/۸۲، حاشیہ از احمد محمد شاکر)
اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ عام حالات میں عام افراد کے لیے حکم ہے۔ عذر کی صورت میں بے وضو مصحف چھونے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ مثلاً فقہا نے چھوٹے بچوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ تعلیم القرآن کے لیے وہ بے وضو اسے ہاتھ میں لے سکتے ہیں ۔ اسی طرح جن لوگوں کو بار بار پیشاب ہونے کا عذر ہو، یا کسی اور سبب سے ان کا وضو دیرپا نہ رہتا ہو ان کے لیے گنجائش ہے۔ وہ وضو کرکے قرآن پڑھنا شروع کریں اور ایک نشست میں جتنی دیر چاہیں اس میں مشغول رہیں ، خواہ درمیان میں ان کا وضو ٹوٹ گیا ہو۔