تحدیدنسل کی حرمت پر بعض اشکالات

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قتل اولاد سے منع فرمایا ہے ۔(الانعام: ۱۵۱) اس آیت سے یہ بات تو واضـح ہے کہ زندہ اولاد کا قتل حرام ہے ، جیسے عرب عہد جاہلیت میں لڑکیوں کوزندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ آج اسقاطِ حمل کے طریقے کو بھی اس آیت کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے ، لیکن جب آگے بڑھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کا آپریشن کراکے توالد وتناسل بند کردینا بھی حرام ہے تویہ بات سمجھ سے بالا تر ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ اس آیت میں اس فعل کے حرام ہونے کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے ۔ عزل کی متبادل صورتیں ، جوآج کل رائج ہیں اور جن سے دو بچوں کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا ہے ، اہلِ علم ان میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اوراسے مطلقاً جائز مانتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص ان صورتوں کواختیار کرکے اس فاصلہ کوکتنی ہی مدت تک دراز کرسکتا ہے ، حتیٰ کہ اپنی بیوی کی موت تک، توپھر اس کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپریشن کرواکے عورت کو ما ں بننے کے قابل ہی نہ رہنے دیا جائے۔ قتل اولاد کی ممانعت کا اطلاق حاملہ عورت کے جنین پر توہوسکتا ہے ، لیکن اس نطفے پر کیسے ہوسکتا ہے جس سے ابھی حمل کا استقرار ہی نہیں ہوا ہے ۔ وجود کے بغیر قتل اولاد کا اطلاق کیسے ممکن ہے؟ دوسری دلیل اس سلسلے میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآ ن نے اللہ تعالیٰ کی ساخت میں تبدیلی کرنے کوشیطان کا فعل قرار دیا ہے ۔ (النساء: ۱۱۹) مولانا مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح میں اس فعل کوحرام قرار دیا ہے ۔ (تفہیم القرآن ، جلد اول ، سورہ نساء ، حاشیہ : ۱۴۸)اس سے اگر انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی کومراد لیا جائے توپھر اس زمرے میں توبہت سے کام آجائیں گے ، مثلاً مصنوعی آنکھ لگوانا ، ایک شخص کا گردہ یا آنکھ دوسرے شخص کودینا، ہاتھ یا پیر کاٹنا وغیرہ ، لیکن ان کی حرمت کا کوئی بھی قابلِ ذکر فقیہ قائل نہیں ہے۔ جب انہیں گوارا کرلیا گیا(بہ ضرور ت ہی سہی )توپیدائشِ اولاد کو مستقل روکنا بھی ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ اسے کیوں نہیں گوارا کیا جاسکتا۔ میں کثرتِ اولاد کا مخالف نہیں ہوں ، لیکن مسلم معاشرہ میں کثرتِ اولاد سے بہت زیادہ پیچیدگیا ں پیدا ہورہی ہیں ۔جہالت کی وجہ سے انتہائی غریب مسلمان ہرسال بچہ پیدا کرکے عورتوں کوتختۂ مشق بنائے ہوئے ہیں ،جس کا اثر نہ صرف ان کی صحت پر ، بلکہ بچوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے ، معاشی مسائل جو پیدا ہوتے ہیں ،و ہ الگ ہیں ۔ اس مسئلہ کوصرف یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اللہ رازق ہے ۔ توکل علی اللہ کی یہ عجیب وغریب مثال دیکھنے میں آتی ہے کہ آمدنی کوبڑھانے کے لیے توکوئی جدوجہد نہیں کی جاتی، بس اتنا کہہ کر خود کومتوکل باور کرلیاجاتا ہے ۔ اولاد کی تعلیم وتربیت سے مجرمانہ غفلت اس پر مستزاد ہے ۔ پھر جیسے ہی ان کی عمر دس بارہ برس کی ہوجاتی ہےانہیں محنت مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں ۔ یہ صورتِ حال ہوسکتا ہے ، دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں نہ ہو ، لیکن دیہاتوں اورچھوٹے شہروں کی پس ماندہ بستیوں میں عام ہے ۔ تعلیم یافتہ طبقہ یا تو مانع حمل ذرائع استعمال کرکے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، یا پھر حرمت سے واقفیت کے علی الرغم عورتوں کا آپریشن کرواکے اولاد کا سلسلہ بند کردیتا ہے ۔ موجودہ دور کا یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے ۔ آں جناب سے امید ہے کہ جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔
جواب

عہدِ جاہلیت میں لوگ فقر وفاقہ کے ڈر سے اپنی اولاد کوقتل کردیتے تھے۔ خاص طور سے وہ لڑکیوں کوبوجھ سمجھتے تھے ۔ اس لیے بـعـض قبائل میں یہ رسم جاری تھی کہ ان کی پیدائش کے بعد وہ انہیں زندہ در گور کردیتے تھے ۔ قرآن نے اس مذموم فعل کی شناعت بیان کی اوراس سے سختی سے روکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۝۰ۭ اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا۝۳۱ ( بنی اسرائیل۳۱:)
’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی ۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تخلیق کا ایک نظام جاری وساری کیا ہے ۔ اسی طرح انسان ہو یاکائنات کی دیگر مخلوقات میں سے کوئی مخلوق، دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اسے جس رزق کی ـضرورت ہو تی ہے اس کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے :
وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا (ہود۶:)
’’زمین میں چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔‘‘
کوئی شخص تخلیق او ر رزق کے معاملات کواپنے قبضے میں کرنا چاہے ، چنانچہ کسی بچے کے پیدا ہونے کے بعد اسے زندہ رہنے کا حق نہ دے اوراسے قتل کردے ، یا رحم مادر میں کسی جنین کوپرورش پاتا ہوا جان کر اس کا اسقاط کروادے ، یا ایسی کوئی تدبیر اختیار کرلے جس سے توالد وتناسل کا سلسلہ ہی یک لخت موقوف ہوجائے ، تینوں صورتوں میں حقیقت اورانجام کار کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے اسلامی شریعت میں جہاں قتلِ اولاد اوراسقاطِ جنین حرام ہیں ، وہیں دائمی طور پر توالد وتناسل کوموقوف کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کوبھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ مانع حمل تدابیر اختیار کرنے پر ’قتل اولاد ‘ کا اطلاق نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ کسی کواس کے وجود کے بغیر کیسے قتل کیا جاسکتا ہے ، لیکن اسے اس عمل کی عدم حرمت کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔
عہدِ نبوی میں بچہ پیدا نہ ہونے دینے کی دو صورتیں رائج تھیں : ایک خصی کروالینا ، دوسرے عزل کرنا ۔ اول الذکر کا مطلب یہ ہے کہ لوگ عملِ جراحت کے ذریعے اپنے خصیے نکلوادیتے تھے ، اس طرح ان کی قوتِ مردمی ختم ہوجاتی تھی اور آئندہ استقرار حمل کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تھی ۔ حدیث میں ہے کہ بعض صحابہ پر راہبانہ تصور کا غلبہ ہو اورانہوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے خصی کروالینے کی اجازت مانگی توآپؐ نے سختی سے ایسا کرنے سے منع کیا اور ان کے سامنے اپنا اسوہ پیش کیا ۔ (بخاری :۴۶۱۵ ، مسلم۱۴۰۴:) عز ل کا مطلب یہ ہے کہ بیوی سےہم بستری کرتے ہوئے انزال کا وقت آئے تومردا لگ ہوجائے اوراپنا مادۂ منویہ باہر گرائے ، جس سے استقرار حمل نہ ہوسکے۔ اس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ کے مختلف ارشادات ملتے ہیں ۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اسے نا پسند کیا ہے اوراسے ’الوأد الخفی ‘ (زندہ در گور کرنے جیسی، لیکن اس کے مقابلے میں ہلکی صورت ) قراردیا ہے۔ (مسلم: ۱۴۴۲) یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ جس بچے کی پیدائش اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھی ہو ، اس تدبیر کے ذریعے اسے روکا نہیں جاسکتا ۔‘‘ (بخاری : ۲۲۲۹، مسلم۱۴۳۸:) لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نا پسند کرنے کے باوجود آپؐ نے اس کی اجازت دی ہے۔ (بخاری۲۵۴۲:، مسلم۱۴۳۸:) اس تفصیل سے کم از کم اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مردیا عورت کا آپریشن کرواکے توالد کاسلسلہ بالکلیہ موقوف کردینا جائز نہیں ، البتہ عارضی اور وقتی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں ۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورۂ النساء کی آیت ۱۱۹ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ (یعنی شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے ) کی تشریح میں ضبط ولادت کو بھی شامل کیا ہے ۔ اوپر سوال میں مولانا کا حوالہ دیا گیا ہے ، لیکن ان کی پور ی بات نقل نہیں کی گئی ہے اوران کی بحث کوصرف ’ انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی ‘ تک محدود کردیا گیا ہے۔ پھر اس پر اشکال وارد کردیا گیا ہے۔ مولانا کی پوری عبارت سامنے ہو توغلط فہمی نہیں ہوگی ۔ انہوں نے لکھا ہے :
’’در اصل اس جگہ جس ردّ وبدل کوشیطانی فعل قرار دیا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدانے اسے پیدا نہیں کیا ہے اورکسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر، وہ تمام افعال جوانسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے اوروہ تمام صورتیں جووہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے ، اس آیت کی رو سے شیطان کی گم راہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں ۔‘‘ (تفہیم القرآن ، اول ، ص ۳۹۹)
اس ضمن میں مولانا نے بہ طور مثال عمل قوم لوط ، ضبطِ ولادت، رہبانیت ، برہم چرج، مردوں اور عورتوں کوبانجھ بنانا، مردوں کوخواجہ سرا بنانا وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے ۔
سوال کے آخر میں مسلم سماج میں کثرتِ اولاد کے جومسائل اور پیچیدگیاں بیان کی گئی ہیں ، وہ حقیقت پرمبنی ہیں ۔ انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسلمانوں کو تعلیم ، صحت اور معاش کے میدان میں اوپر اٹھانے اور ترقی دینے کی ہر تدبیر اورکوشش قابل قدر اور لائق ستائش ہے ، لیکن اس کا حل یہ ہرگز نہیں کہ مسلمانوں کوکم سے کم بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا جائے۔ کچھ دہائیوں قبل جن ملکوں میں فیملی پلا ننگ کوریاستی پالیسی بنایاگیاتھا اوراپنے شہریوں کو صرف ایک بچہ یا دو بچے پیدا کرنے کا پابند کیا گیاتھا، بالآخر ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اوروہ قانون تبدیل کرکے شہریوں کوزیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے پر مجبور ہوئے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے ۔ کوئی عورت کسی مرض کی وجہ سے استقرار حمل کی متحمل نہیں ہے، یا اس کی صحت اس کی اجازت نہ دیتی ہو،یا اور کوئی معقول اورناگزیر سبب ہو تومنع حمل کی تدابیر اختیار کرنے کی فقہاء نے اجازت دی ہے ۔ لیکن اس چیزکوعام حالات میں جائز قرار دیا جاسکتا ہے نہ اسے ریاستی پالیسی بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔