جواب
اپنے اعمال کے بارے میں ہمہ وقت حساس رہنا ایمان کی علامت ہے۔ اللہ کے نیک بندے کو ہر لمحہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں اس سے کوئی ایسا گناہ یا ایسی لغزش تو نہیں سرزد ہو رہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دعوت دیتی ہو اور اس کے غضب کو بھڑکاتی ہو، جب کہ اللہ کا نافرمان بندہ اس فکر سے بے پروا ہوتا ہے۔ صحابی ِ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسی بات کو تمثیل کے انداز میں یوں بیان کیا ہے۔
’’مومن سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس پر اس طرح خوف طاری ہوجاتا ہے گویا وہ کسی پہاڑ کے دامن میں ہے اور وہ پہاڑ اس پر گرا چاہتا ہے اور فاجر اگر کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس پر اس کی کیفیت بس ایسی ہوتی ہے گویا کوئی مکھی اس کی ناک پر بیٹھی تھی جسے اس نے ہانک دیا۔‘‘ (ترمذی: ۲۴۹۷)
آپ نے جو سوالات دریافت کیے ہیں ، وہ عام طور سے تحریکی حلقے کی خواتین کو درپیش رہتے ہیں ۔ میں اپنے فہم کے مطابق ان کے جوابات تحریر کر رہا ہوں ۔ امید ہے ان سے آپ کی الجھنیں رفع ہوجائیں گی۔
۱- یہ سوال کہ ایسے اجتماعات میں ، جہاں مرد بھی رہتے ہوں ، کیا عورت قرآن، حدیث کا درس دے سکتی ہے یا تقریر کرسکتی ہے؟ دراصل ایک دوسرے سوال پر مبنی ہے کہ کیا عورت کی آواز کا پردہ ہے یا نہیں ؟ اگر عورت کی آواز کا پردہ ہے کہ اجنبی مردوں کے لیے اس کا سننا جائز نہ ہو تو ظاہر ہے کہ مشترک اجتماعات میں کسی بھی طریقے سے اس کا اظہار ِ خیال کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ بعض فقہا عورت کی آواز کے پردے کے قائل ہیں ۔ علامہ حصکفیؒ حنفی فرماتے ہیں :
اِنَّ صَوْتَ المَرْأۃِ عَوْرَۃٌ عَلَی الرَّاجِحِ۔ (حصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، طبع بیروت، ۹؍۵۳۱)
’’راجح قول کے مطابق عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔‘‘
اسی طرح مالکی فقہاء علامہ قرطبیؒ اور قاضی ابن العربیؒ نے لکھا ہے:
اِنَّ الْمَرْأَۃَ کُلَّھَا عَوْرَۃٌ بَدَنَھَا وَ صَوْتَھَا۔
(ابو عبد اللّٰہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، طبع مصر، ۱۴؍۲۲۷، القاضی ابن العربی، احکام القرآن، طبع بیروت، ۳؍۱۵۷۹)
’’عورت سراپا قابل ِ ستر ہے۔ اس کا بدن بھی اور اس کی آواز بھی۔‘‘
اس بنا پر ان فقہاء نے نماز میں امام کی کسی غلطی پر اسے متنبہ کرنے کی صورت میں عورت کے لیے منہ سے آواز نکالنے کو منع کیا ہے۔ لیکن بعض فقہا کا خیال ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔ الموسوعۃ الفقھیۃ میں فقہ شافعی کی مشہور کتاب مغنی المحتاج کے حوالے سے درج ہے:
اَمَّا صَوْتُ الْمَرْأۃِ فَلَیْسَ بِعَوْرَۃٍ عِنْدَ الشَّافِعِیَّۃِ وَ یَجُوْزُ الْاِسْتِمَاعِ اِلَیْہِ عِنْدَ أَمْنِ الْفِتْنَۃِ۔ (الموسوعۃ، طبع کویت، ۳۱؍ ۴۷)
’’شوافع کے نزدیک عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔ فتنہ کا اندیشہ ہو تو اسے سنا جاسکتا ہے۔‘‘
قرآن کی روشنی میں مؤخر الذکر فقہا کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے حکم دیا ہے:
اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَ قُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا (الاحزاب: ۳۲)
’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے،بل کہ صاف سیدھی بات کرو۔‘‘
اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ عورتیں اجنبی مردوں سے بات ہی نہ کریں ، بل کہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ وقت ضرورت بات کرتے وقت وہ اپنی آواز میں لوچ اور نرمی پیدا نہ کریں اور ان کی باتیں صاف، بے آمیز اور بھلائی پر مبنی ہوں ۔ علامہ قرطبیؓ فرماتے ہیں : ’قول معروف سے مراد وہ درست بات ہے جو نہ شریعت کی نگاہ میں قابل گرقت ہو اور نہ جسے لوگ برا سمجھتے ہوں ‘ (القول المعروف ھو الصواب الذی لا تنکرہ الشریعۃ ولا النفوس۔ (تفسیر القرطبی، ۱۴/۱۷۸) امام رازیؒ نے لکھا ہے: ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت اجنبی مردوں سے بد زبانی کرے، بل کہ اس آیت میں وقتِ ضرورت اچھی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ (ان ذلک لیس امراً بالایذاء والمنکر، بل القول المعروف و عند الحاجۃ ھو المأمور بہ لا غیر۔ تفسیر کبیر، طبع قاہرہ۔ ۲۵/۱۸۲)
عہد نبویؐ میں عورتیں آں حضرت ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتی تھیں ۔ وہاں مرد بھی ہوتے تھے، ان کی موجودگی میں وہ آپؐ سے مختلف سوالات کرتی تھیں ۔ ان کی گفتگو کبھی مختصر ہوتی تھی اور کبھی طویل۔ آں حضرت ﷺ نے کبھی اس چیز کا اظہار نہیں فرمایا کہ مردوں کی موجودگی میں عورتوں کو خاموش رہنا چاہیے اور اپنے منہ سے کوئی آواز نہیں نکالنی چاہیے۔ ایک موقعے پر حضرت اسماء بنت زید بن سکنؓ نامی صحابیہ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئیں اور دوسری خواتین کی ترجمانی کرتے ہوئے اسلامی معاشرے میں اپنی خدمات اور ان پر اجر کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ آپؐ نے حاضرین ِ مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’کیا تم لوگوں نے کسی عورت کو اپنے دین کے متعلق اس عورت سے زیادہ بہتر انداز میں سوال کرتے سنا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم نے نہیں سنا۔‘ (ابن عبد البر، الاستیعاب فی اسماء الاصحاب، تذکرہ اسماء بنت زید بن سکن، ۴/۲۳۷، بر حاشیہ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، مطبعۃ السعاوۃ مصر)
ایک موقعے پر مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند سے یہی سوال کیا گیا کہ عورت کے لیے آواز کا پردہ ہے یا نہیں ؟ اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:
’عورت کے لیے اجنبی مردوں سے بلا وجہ بات چیت کرنا ناپسندیدہ ہے۔ لیکن بہت سی علمی، دینی، معاشی ضروریات کے تحت اسے بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ کسی نامحرم سے بات چیت کے وقت عورت کی آواز میں لوچ نہ ہو۔ اس کی آواز ایسی نہ ہو کہ غیر مرد کے دل میں کوئی برا خیال آئے، بل کہ اس کے لب و لہجے میں کسی قدر درشتی ہو اور بات نیکی، تقویٰ اور دین و دنیا کی بھلائی کی ہو۔‘ (اسلام کا عائلی نظام، طبع دہلی، ص: ۱۸۱)
۲- عورت کا اجنبی مردوں سے وقت ِ ضرورت بالمشافہ گفتگو کرنا جائز ہے تو فون کے ذریعے بھی اس کا ان سے رابطہ کرنا اور گفتگو کرنا جائز ہوگا۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
۳- عورت کا دائرہ کار اس کا گھر اور مرد کا دائرہ کار بیرون ِ خانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت گھر سے باہر کے کسی کام کی انجام دہی کے لیے نکل ہی نہیں سکتی اور مرد کے لیے اندرون ِ خانہ کوئی کام کرنا روا نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عام ضروریات کی انجام دہی کے لیے عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:
قَدْ اَذِنَ اللّٰہُ لَـکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِکُنَّ۔
(بخاری: ۵۲۳۷، مسلم: ۲۱۷)
’’اللہ نے تم عورتوں کو اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کے لیے گھروں سے باہر جاسکتی ہو۔‘‘
حوائج (ضروریات) میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ اس میں دنیوی ضروریات بھی شامل ہیں اور دینی ضروریات بھی۔ اگر عورتیں سودا سلف، گھریلو سامان اور ملبوسات وغیرہ کی خریداری کے لیے بازاروں میں جاسکتی ہیں تو وہ اپنی دینی معلومات میں اضافے کے لیے اجتماعات اور مذہبی پروگراموں میں بھی شریک ہوسکتی ہیں ۔ اگر وہ اپنے والدین اور اعز ّہ و اقارب سے ملاقات کے لیے ان کے گھروں میں جاسکتی ہیں تو دینی وتحریکی روابط بڑھانے کے لیے دوسری خواتین کے گھروں میں بھی جاسکتی ہیں ۔ قرآن کریم سے ہمیں اس معاملے میں رہ نمائی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (التوبہ: ۷۱)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا مومن مردوں کے ساتھ ساتھ مومن عورتوں کی بھی ذمّے داری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ذمّے داری اپنے آپ کو گھر تک محدود رکھ کر کما حقہ نہیں انجام دی جاسکتی۔ مرد اور عورتیں دونوں سماج کا حصہ ہیں ۔ ا س کی فلاح و بہبود کے لیے دونوں کو مل کر کام کرنا ہے۔ دین کی تبلیغ و اشاعت، معروفات کا قیام، منکرات کا ازالہ دونوں عورت اور مرد کی مشترکہ جدو جہد اور باہمی تعاون کا تقاضا کرتے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے مل جل کر اور ایک دوسرے کے تعاون سے ان کاموں کو انجام دیں ۔
۴- تعلیم حاصل کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کا بنیادی حق ہے۔ اس میں دینی تعلیم بھی شامل ہے اور دنیوی تعلیم بھی۔ ہر طرح کی تعلیم لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی حاصل کرسکتی ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ لڑکیوں کے لیے ابتدائی مرحلے سے اعلیٰ سطح تک تعلیم کے علاحدہ ادارے ہوں ، جن میں وہ آزادی، یک سوئی اور اطمینان کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں ۔ ایسے ادارے قائم بھی ہور ہے ہیں ۔ لیکن چوں کہ ابھی وہ بہت محدود تعداد میں ہیں اور ہر علاقے میں نہیں پائے جاتے ہیں ، اس وجہ سے مسلم لڑکیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ جہاں لڑکیوں کے لیے علاحدہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سہولت نہ ہو وہاں وہ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اور پردے کے اہتمام کے ساتھ مخلوط تعلیمی اداروں کو جوائن کرسکتی ہیں ۔
۵- خواتین کی غیر محرم اور اجنبی مردوں سے ملاقات کے سلسلے میں شریعت نے کچھ حدود متعین کی ہیں ۔ ان کی رعایت کرتے ہوئے ان سے ملاقات کی جاسکتی ہے اور ان سے گفتگو اور تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ کسی اجنبی مرد سے تنہائی میں ہرگز نہ ملے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ (بخاری: ۵۲۳۳، مسلم: ۱۳۴۱) وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے، جس میں مرد کے لیے کشش ہو، مثلاً تیز خوش بو، شوخ رنگ کے کپڑے اور زیب و زینت وغیرہ۔ گفتگو شریفانہ انداز میں ، حیا اور وقار کے ساتھ اور اخلاقی حدود میں رہ کر کی جائے۔ ناز، نخرے اور لبھانے والا انداز نہ ہو۔ (الاحزاب: ۳۲) اسی طرح اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ساتر لباس میں ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا لباس نہ اتنا تنگ ہو کہ جسم کے نشیب و فراز نمایاں ہوں اور نہ اتنا باریک کہ بدن جھلکے۔ بد ن کے سارے اعضاء ڈھکے ہوئے ہوں اور سینے پر دو پٹا ہو۔ (النور: ۳۱) جہاں تک اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے لیے اپنا چہرہ کھولنے یا نہ کھولنے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ بعض چہرہ چھپانے کو واجب قرار دیتے ہیں ، جب کہ بعض کا خیال ہے کہ سورہ النور کی آیت: ۳۱ اور بعض احادیث سے چہرہ اور ہتھیلی کا استثناء معلوم ہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ عورت کے لیے اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کے قائل ہیں ۔ یہ اختلاف عہد صحابہ سے موجود ہے اور دونوں گروہوں کے پاس مضبوط دلائل ہیں ۔ اس لیے کسی کے موقف کو یک سر رد نہیں کیا جاسکتا۔ مناسب ہے کہ عورت کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے لیے جو موقف بہتر سمجھتی ہو، اختیار کرلے۔
تحریکی خواتین کے دائرۂ عمل سے متعلق سطورِ بالا میں جو باتیں عرض کی گئی ہیں ، ان کے ساتھ چند اور باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے:
۱- مردوں کے پروگراموں میں خواتین کے ذریعے اور خواتین کے پروگراموں میں مردوں کے ذریعے اظہار خیال کے مواقع شدید ضرورت کے تحت ہی فراہم کیے جانے چاہییں ۔ اگر مذہبی اجتماعات میں مطلوبہ موضوعات پر تقریر کرنے کے لیے باصلاحیت مرد موجود ہوں تو خواتین کے ذریعے اسٹیج سے یا پس پردہ تقریر کروانے سے بچنا مناسب ہے۔ بسا اوقات قدامت پرستی اور جمود پسندی کے طعنوں سے خود کو بچانے کے لیے ہم اپنے اجتماعات میں ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں تو ان سے ہمیں جتنا فائدہ حاصل ہوتاہے، اس سے کہیں زیادہ ہم مسلم عوام کو اپنے سے دور کردیتے ہیں ۔ یہ دانش مندی نہیں ہے۔ کبھی کبھی کسی کام کے جائز ہونے کے باوجود عوام کی ناپسندیدگی کی بنا پر اسے چھوڑنا مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ جانتے ہوئے کہ خانۂ کعبہ پورے طور پر ابراہیمی بنیادوں پر قائم نہیں ہے، اسے منہدم کراکے از سر نو تعمیر نہیں کرایا۔ اس کے پیچھے یہی مصلحت تھی۔
۲- تحریکی خواتین کو اپنی دینی و دعوتی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے حتی الامکان شبہات کے مواقع سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور ذمّے داروں اور رفقاء سے ملاقات کرتے وقت پوری احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے۔ تاکہ کسی کو انھیں بدنام کرنے اور ان کے خلاف باتیں بنانے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اسوے سے رہ نمائی ملتی ہے۔ ایک مرتبہ آپؐ مسجد میں معتکف تھے۔ آپؐ کی زوجہ حضرت صفیہؓ آپؐ سے ملنے آئیں ۔ واپسی میں آپؐ انھیں رخصت کرنے مسجد کے دروازے تک تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں سے دو انصاری صحابی گزر رہے تھے۔ انھوں نے آپؐ کو کسی خاتون کے ساتھ دیکھا تو اپنی رفتار اور تیز کردی۔ آپؐ نے انھیں پکارا اور فرمایا: ’’ٹھہرو! یہ میری بیوی صفیہ ہیں ۔‘‘ ان دونوں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! سبحان اللہ، ہم آپؐ کے بارے میں کوئی غلط بات کیوں کر سوچ سکتے ہیں ۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:
اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔ (بخاری: ۷۱۷۱)
’’شیطان انسان کے دل میں وسوسے ڈالنے کے لیے اس طرح سرگرم رہتا ہے جس طرح اس کی رگوں میں خون دوڑتا ہے۔‘‘
۳- اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش ہو یا تحریکی سرگرمیاں انجام دینے اور تحریکی افراد سے روابط کا مسئلہ ہو، تحریکی خواتین کے لیے اپنے سرپرستوں (ماں باپ ہوں یا دوسرے رشتہ دار یا شوہر) کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ وہ جو بھی کام کریں ان کو بتا کر اور ان کے مشورے سے کریں ۔ اس طرح انھیں ان کی جانب سے تعاون اور ہم دردی بھی حاصل ہوگی اور کسی قسم کی بدگمانی کو در آنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ بسا اوقات انھیں اعتماد میں لیے بغیر یا ان کی عدم رضا مندی کے باوجود تحریکی کام انجام دینے سے بڑے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
۴- ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔ ہر عورت کے لیے لازم ہے کہ پہلے اپنے گھر پر توجہ دے، پھر دوسرے لوگوں کی فکر کرے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اَلْمَرْأۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَ وَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْئُولَۃٌ عَنْھُمْ۔ (بخاری: ۷۱۳۸، مسلم: ۱۸۲۹)
’’عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگراں ہے، اس سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی۔‘‘
اس معاملے میں بسا اوقات بڑی کوتاہیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ والدین یا ان میں سے کوئی ایک، گھر سے باہر تحریکی سرگرمیاں انجام دینے میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ بچوں پر کما حقہ اس کی توجہ نہیں رہ پاتی اور وہ انھیں پورا وقت نہیں دے پاتا، جس کی بنا پر بچوں کی صحیح ڈھنگ سے تربیت نہیں ہوپاتی اور وہ تحریک سے بھی دور ہوجاتے ہیں ۔ بہت سے تحریکی گھرانوں کا یہی المیہ ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حدودِ شرع کا پابند بنائے۔ آمین