گزشتہ ایک ماہ میں میرے دو رشتے داروں کا انتقال ہوا۔ دونوں مواقع پر عجیب صورتِ حال سامنے آئی۔ پہلے رشتے دار کا انتقال بعد نمازِعشاء ہو گیا تھا۔ رائے بنی کہ اگلے دن صبح تدفین کر دی جائے، لیکن ان کے ایک لڑکے کویت میں تھے۔ ان کا سفر ممکن ہوگیا، اس لیے ان کا انتظار کرنا پڑا۔ چناں چہ تدفین اگلے دن بعد نماز عشاء ہو سکی۔ دوسرے رشتے دار کے ایک صاحب زادے امریکہ میں تھے۔ شدید علالت کی اطلاع پاکر وہ روانہ ہو گئے۔ اِدھر ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ چناں چہ ان کے انتظار میں تدفین کو چھتیس (۳۶) گھنٹے مؤخر کرنا پڑا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی شخص کا انتقال ہونے کے بعد اس کی تدفین میں تاخیر کی جا سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کس حد تک؟ براہِ کرم اس کا شرعی حکم واضح فرمائیں ۔
جواب
کسی شخص کا انتقال ہونے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کرنا بہتر ہے۔ کسی قانونی مجبوری یا شرعی عذر کے بغیر تاخیر ناپسندیدہ ہے۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جلد از جلد تدفین کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا
أسْرِعُوا بِالجَنَازَۃِ، فَاِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَیْراً تُقَدِّمُوْنَھَا، وَاِن یَكُ سِوَی ذٰلِكِ فَشَرٌّ تَضَعُونَهٗ عَنْ رِقَابِکُمْ (بخاری۱۳۱۵، مسلم۹۴۴)
’’جنازہ کو قبرستان لے جانے میں جلدی کرو۔ اگر مرنے والا نیک ہوگا تو بہتر ہے کہ اسے جلد پہنچا دو اور اگر ایسا نہ تو ایسے بُرے شخص کو جلد اپنے کندھے سے اتار دو۔‘‘
’جنازہ کو جلدی لے جانے میں ‘ دونوں باتیں شامل ہیںاسے تیار کرنے کے بعد قبرستان لے جانے میں جلدی کرنا اور انتقال ہوجانے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت طلحہ بن براءؓ بیمار ہوئے تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی عیادت کی،پھر واپس ہوئے تو فرمایا’’ میرا خیال ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب آگیا ہے۔ جب ان کا نتقال ہوجائے تو مجھے خبر کرنا، تاکہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں ۔‘‘ اس موقع پر آپ ﷺنے مزید فرمایا
وَعَجِّلُوا بِه فَاِنَّهٗ لَا یَنْبَغِی لِجِیْفَةِ مُسْلِمٍ أنْ تُحْبَسَ بَیْنَ ظَہْرَانَی اَھْلِهِ (ابو داؤد۳۱۵۹)
’’اس کی تجہیز و تدفین میں جلدی کرو۔ اس لیے کہ کسی مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں کہ اس کو اس کے گھر والوں کے درمیان روک کر رکھا جائے۔‘‘
محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں، اس بنا پر یہ حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
کسی شخص کے انتقال کے بعد بسا اوقات کوئی قانونی پیچیدگی آجاتی ہے، یا کسی نعش کی شناخت نہیں ہو پاتی، اس وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر نعش کو کچھ مدت کے لیے سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ شرعی طور پر اس کی گنجائش ہے۔
اسی طرح اس کی بھی گنجائش ہے کہ میت کا ولی مثلاً بیٹا یا شوہر یا کوئی دوسرا قریبی عزیز کہیں دور ہو اور وفات کی خبر پاکر اسے پہنچنے میں کچھ وقت لگ جائے تواس کا انتظار کر لیا جائے، اگر اس کے آنے تک نعش کو خراب ہونے سے بچانے کا کوئی معقول نظم ہو۔ محدثین و فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے۔ علامہ مناوی ؒنے لکھا ہے
فاذا حضرت للمصلّیٰ لا تؤخّر لزیادۃ المصلّی ولا غیرہ للأمر بالاسراع بھا، نعم ینبغی انتظار الولی إن لم یخف تغیّرہ.
(فیض القدیرشرح الجامع الصغیر،۳؍۴۰۹)
جنازہ قبرستان پہنچ جائے تو نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کے مقصد سے نمازِ جنازہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ جنازہ کو تدفین کے لیے جلدی لے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاں، ولی کا انتظار کر لینا مناسب ہے، اگر نعش میں تغیر پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو۔‘‘
شافعی فقیہ علامہ رملیؒ نے لکھا ہے
و لا بأس بانتظار الولی اذا رُجی حضورہ عن قربٍ و أمن من التغیّر(نھایۃ المنہاج)
’’ولی کا انتظار کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر امید ہو کہ وہ جلد آجائے گا اور نعش تغیر سے محفوظ رہے۔‘‘
اور حنبلی فقیہ شیخ نجم الدین الحرانیؒ نے لکھا ہے
و یجوز التأنّی قدر ما یجتمع لہ الناس من أقاربه و أصحابه و غیرھم،ما لم یشقّ علیھم أو یخف علیه الفساد
(الرعایۃ الکبریٰ)
’’تدفین میں اتنی تاخیر کرنی جائز ہے کہ میت کے اعزّا و اقربا، دوست احباب اور دیگر لوگ اکٹھا ہوجائیں، اگر انھیں زحمت نہ ہو اور نعش میں فساد پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو۔‘‘
میت کا کتنے گھنٹے تک انتظار کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں کوئی متعین بات کہنی ممکن نہیں ہے۔ بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ تدفین میں بلا کسی خاص ضرورت کے تاخیر کرنا دینی اعتبار سے پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، تدفین کی کوشش کرنی چاہیے۔