جواب
قبر کے پاس تلاوت ِ قرآن کریم کے مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ سلف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ البتہ متاخرین مالکیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔
احناف، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ قبر کے پاس قرأت ِ قرآن مکروہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے انتقال کے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین کے بعد قبر کے پاس سورۂ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔
مشہور حنفی فقیہ ابن عابدینؒ نے شرح اللباب کے حوالے سے لکھا ہے:
’’آدمی کو قبر کے پاس سورۂ فاتحہ، سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات (المفلحونتک) آیت الکرسی، سورۂ بقرہ کی آخری آیات (آمن الرسول تا ختم سورہ) سورۂ یٰسٓ، سورہ ملک، سورۂ تکاثر اور سورۂ اخلاص (تین، سات، گیارہ یا بارہ مرتبہ) میں سے جو بھی توفیق ہو، پڑھے۔‘‘
ایک قول یہ ہے کہ ’’قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پیروں کی طرف کھڑے ہوکر اس کی آخری آیات پڑھی جائیں ۔‘‘ (۱)