جواب
کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کا حق ہے کہ اس کی تعزیت کی جائے، اس کے متعلقین سے مل کر انھیں تسلی دی جائے اور ان کی غم گساری کی جائے۔
ایک صحابی رسول آپؐ کی مجلس میں پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ ان کے ایک بچے کا، جو انھیں بہت محبوب تھا، انتقال ہوگیا تو وہ کئی دن آپؐ کی مجلس میں شریک نہ ہوسکے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ان کے بچے کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپؐ نے ان سے ملاقات کی، انھیں تسلی دی اور فرمایا کہ جن بچوں کا کم عمری میں انتقال ہوجاتا ہے وہ جنت کے دروازوں پر اپنے والدین کا استقبال کرتے ہیں ۔
(نسائی، کتاب الجنائز، باب فی التعزیۃ: ۲۰۸۸۔ یہ حدیث صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں بھی مروی ہے)
آں حضرت ﷺ کو اپنی صاحب زادی حضرت زینب ؓکے ایک بچے کے جان کنی کے عالم میں ہونے کی خبر پہنچی۔ آپؐ اپنے متعدد اصحاب کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کو دلاسا دیا۔ (بخاری: ۱۲۸۴، مسلم: ۹۲۳۔ یہ حدیث ابودائود، نسائی، ابن ماجہ ، بیہقی اور احمد سے بھی مروی ہے)
آپؐ کو ایک انصاری عورت کے بچے کے انتقال کی خبر ملی۔ اس کا کوئی سرپرست نہیں تھا۔ آپؐ نےبعض صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس کے گھر جاکر اس کی تعزیت کی۔(اسے حاکم، ہیثمی اوربزار نے روایت کیا ہے) حضرت ابوسلمہؓ کے انتقال کی خبر ملی تو آپؐ ان کے گھرتشریف لے گئے اور گھر والوں کو تسلی دی ۔ (مسلم: ۹۲۰) حضرت جعفر بن ابی طالبؓ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو آپؐ ان کے گھر تشریف لے گئے، ان کے بچوں کو پیار کیا اور ان سے تعلقِ خاطر کا اظہار کیا ۔ (مسند احمد: ۱۷۵۰، مستدرک حاکم، ابودائود: ۴۱۹۴)
رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو صحابہ کرامؓ آپؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپؐ کی تعزیت کی۔ ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔ (ابن ماجہ: ۱۵۸۹)
مشہور تابعی قاسم بن محمدؒ کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو محمد بن کعب قرظیؒ ان کے گھر گئے اور بنی اسرائیل کا ایک واقعہ سناکر ان کی غم گساری کی۔ (مؤطا امام مالک: ۱۰۰۲)
اس طرح کے واقعات کا تذکرہ احادیث میں کثرت سے ملتا ہے۔ میت کے متعلقین کی تعزیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل میت کے لیے رشتے داروں اور پڑوسیوں کی جانب سے کھانے کا انتظام کرناچاہیے، اس لیے کہ وہ غم سے اتنے نڈھال ہوتے ہیں کہ کھانا پکانے کی طرف ان کی طبیعت مائل نہیں ہوتی۔ حضرت جعفرؓ کے انتقال کی خبر پہنچی تو آپؐ نے فرمایا:
اِصْنَعُوا لآلِ جَعفرطعاماً فقد اتاہم امرٌ یُّشغلُہُمْ۔
(ابودائود: ۳۱۳۲، ترمذی: ۹۹۸، ابن ماجہ: ۱۶۱۰)
’’ جعفر کے گھروالوں کے لیے کھانا بنائو، اس لیے کہ انھیں ایسی خبر پہنچی ہے جس نے انھیں بدحال کردیا ہے ‘‘۔
البتہ یہ صورت کہ کسی شخص کے انتقال کی خبر پاکر دور و نزدیک کے رشتے دار اکٹھا ہوں تو میت کی تدفین کے بعد اہل میت ہی ان کے کھانے کا نظم کریں ، یہ بات دین اور مروت دونوں کے خلاف ہے۔ صحابیِ رسول ؐ حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ فرماتے ہیں :
کُنّا نَعُدُّ الاجْتِمَاعِ الٰی اَھْلِ المَیِّتِ وَصَنِیْعَۃَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہ مِنَ النِّیَاحَۃِ۔ (ابن ماجہ: ۱۶۱۲، احمد: ۶۹۰۵)
’’ہم میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے گھر والوں کے پاس اکٹھا ہونے اور ان (اکٹھا ہونے والوں ) کے لیے کھانا پکائے جانے کو ’نوحہ ‘ میں سے شمار کرتے تھے (جس کی ممانعت کی گئی ہے)‘‘
جہاں تک میت کے گرد بیٹھ کر یا اس کی تدفین کے بعد ایک دن یا کئی دن اجتماعی طور پر تلاوتِ قرآن کرنے یا دعا اور تسبیح پڑھنے کا معاملہ ہے تو صدرِاول میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایصالِ ثواب کا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے ۔ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے نامۂ اعمال میں اجر کا اضافہ کن صورتوں میں ہوسکتا ہے؟ اس کا بیان درج ذیل حدیث میں ہوا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِذَا مَاتَ الِانْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہ عَمَلُہ‘ الَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ:الَّامِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْعِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدُعُوْلَہ‘۔
(مسلم: ۱۶۳۱، ابودائود۲۸۸۰:)
’’جب کسی شخص کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ البتہ تینوں کاموں کی صورت میں اسے برابر اجر ملتا رہتا ہے: (۱) اس نے کوئی صدقہ کیا ہو جس کا فیض جاری ہو (۲) اس نے ایسا علم چھوڑا ہو جس سے برابر فائدہ اٹھایا جارہا ہو۔ (۳) اس کی نیک اولاد ہو، جو اس کے لیے دعا کر رہی ہو ‘‘۔
اجتماعی قرآن خوانی کے لیے کسی مدرسے کے بچوں کو استعمال کرنا درحقیقت انھیں ذلیل کرنا ہے۔ امت کی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔