مسجد کی تعمیر نو کے سلسلے میں ایک مسئلہ درپیش ہے۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
ایک قیمتی کمرشیل ایریا میں ایک قدیم مسجد ہے۔اس کی تعمیر نو کا ارادہ ہے۔ مسجد کو شہید کر دیا گیا ہے۔مسجد کا نقشہ گراؤنڈ فلورکے علاوہ تین منزل کا بنایا گیا ہے۔مسجد کے مصروف کمرشیل ایریا میں ہونے کی وجہ سے نمازیوں کواپنی گاڑیوں کو پارک کرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے ۔اس لیے ایک تجویز یہ آئی کہ گراؤنڈ فلور کو وضو خانہ اور گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے خاص کردیا جائے اور مسجد بالائی منزل سے بنائی جائے۔ لیکن مقامی مفتیانِ کرام کا کہنا ہے کہ ایک بار مسجد بننے کے بعد جس حصے میں ایک دو مرتبہ بھی نماز ادا کر لی جائے وہ حصہ آئندہ کسی بھی دوسرے کام میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔
کیا یہ بات درست ہے؟ کیا گراؤنڈ فلور کو وضو خانے اورپارکنگ کے لیے اور اوپر کی تین منزلوں کو مسجد کے لیے خاص نہیں کیا جا سکتا؟ براہ کرم شرعی دلائل کے ساتھ رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب
قدیم مسجد بوسیدہ یا تنگ ہوگئی ہو اور بازار میں ہونے کی وجہ سے نمازیوں کو اپنی گاڑیوں کی پارکنگ میں دشواری کا سامنا کرناپڑتاہو،اس بناپر مسجد کی قدیم عمارت گراکر دوبارہ اس کی کئی منزلہ تعمیر کا منصوبہ ہوتو مسجد کو بالائی منزل پر منتقل کرنے اور بیسمنٹ یا گرائونڈ فلور کو وضوخانے،طہارت خانے اور پارکنگ کے لیے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
مسجد کی زمین وقف ہوتی ہے۔ کسی چیز کو جس مقصد سے وقف کیاگیاہو، اصلاً اسی کام میں استعمال کرنا چاہیے۔البتہ اس کے بہتر استعمال کے لیے اس میں کچھ ترمیم کی جاسکتی ہے اور اس کی از سر نو تعمیر بھی کی جا سکتی ہے۔ فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے۔
حنبلی فقیہ علامہ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے
قال أحمد فی مسجدٍ أراد أھله رفعه من الأرض، و یجعل تحته سقایة وحوانیت، فامتنع بعضهم من ذلك، فینظر الیٰ قول أکثرهم ( ابن قدامۃ،المغنی،کتاب الوقف،مکتبۃ القاھرۃ۶؍۳۰)
’’امام احمدؒسے دریافت کیاگیا کہ کچھ لوگ ایک مسجد کو ازسرنو تعمیر کرکے مسجد کو اوپری منزل پر لے جاناچاہتے ہیں اور نیچے پانی پینے کی جگہ، (وضوخانہ) اور دوکانیں تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جب کہ ان میں سے بعض اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ ان میں سے زیادہ ترلوگوں کی جورائے ہو اس پر عمل کرلیاجائے۔‘‘
علامہ ابن تیمیہؒ نے لکھاہے
وأما تغییرصورۃ البناء من غیر عدوانٍ فیُنظر فی ذلك الی المصلحة، فان کانت ھذہ الصورۃ أصلح للوقف و أھله أقرّت، و ان کانت إعادتھا الیٰ ما کانت علیه أصلح أعیدت، وان کان بناء ذلك علی صورۃ ثالثة أصلح للوقف بُنیت، فیتّبع فی صورۃ البناء مصلحة الوقف، و یدار مع المصلحة حیث کانت۔ وقد ثبت عن الخلفاء الراشدین کعمر و عثمان انھما قد غیّرا صورۃ الوقف للمصلحة ( مجموع الفتاویٰ۳۱؍۲۱۲)
’’وقف کی کسی عمارت کی ازسرنو تعمیر کے وقت دیکھاجائے گاکہ مصلحت کا کیا تقاضاہے؟اگر نئے انداز پر تعمیر مقاصدِ وقف کی تکمیل کے لیے زیادہ بہتر ہوتو ویسا کیاجائے گا۔اگر قدیم تعمیر کے مطابق ہی نئی عمارت کو بنانا قرین مصلحت ہوتو ایساہی کیاجائے گا۔اگر تیسری صورت میں تعمیر کے ذریعے وقف سے بہتر طورپر فائدہ اٹھایاجاسکتاہوتو اسی طرح تعمیر کی جائے گی۔بہر صورت نئی تعمیر میں مصلحت کو پیش نظر رکھاجائے گا۔ خلفائے راشدین حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے ثابت ہے کہ انھوں نے مصلحت کے پیش نظر موقوفہ عمارت میں تبدیلی کی تھی۔‘‘
حنفی فقیہ علامہ ابن عابدینؒ نے لکھاہے
اذا کان الطریق ضیّقاً والمسجد واسعاً، لا یحتاجون الیٰ بعضه، تجوز الزیادۃ فی الطریق من المسجد، لأن کلّها للعامّة (ابن عابدین، ردّ المحتار۴؍۵۷۶)
’’اگر راستہ تنگ ہو اور مسجد کشادہ ہواور مسجد کا کچھ حصہ لینے میں لوگوں کوحرج نہ ہو تو اسے لے کر راستہ کو کشادہ کیاجاسکتاہے۔ اس لیے کہ راستہ اور مسجد، سب عوام کے فائدے کے لیے ہے۔‘‘
اسی طرح کا ایک سوال مشہور فقیہ شیخ مصطفی الزرقاء کی سربراہی میں قائم فتویٰ کمیٹی کے سامنے پیش کیاگیاتھا کہ اگر زمین پر بنی ہوئی مسجد کی از سر نو تعمیر کی جائے تو کیا یہ جائز ہے کہ مسجد کو پہلی منزل پر منتقل کردیاجائے اور نیچے کچھ دوکانیں بنادی جائیں، جن کی آمدنی مسجد کو جائے؟ توانھوں نے اس کے جواز کا فتویٰ دیاتھا۔ ملاحظہ کیجیے
http://islamarchive.cc/fatwaa-show-4437-9 ■