جواب
اسلامی شریعت نے غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات رکھنے کی اجازت دی ہے۔ یہ تعلقات دو طرفہ ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً غیر مسلموں کو کھانے پینے کی دعوت دی جاسکتی ہے اور ان کی دعوت قبول بھی کی جاسکتی ہے۔ محتاج اور ضرورت مند غیر مسلموں کی مالی امداد کی جاسکتی ہے اور مال دار غیر مسلموں کی جانب سے مالی امداد قبول بھی کی جاسکتی ہے۔ غیر مسلموں سے کاروباری تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ۔ ان کے یہاں ملازمت کی جاسکتی ہے اور انھیں بھی اپنے یہاں ملازم رکھا جاسکتا ہے۔ انھیں تحفے تحائف دیے جاسکتے ہیں اور ان کا تحفہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے۔ مختلف سماجی، رفاہی اور دیگر کاموں میں ان کا مال و اسباب بھی قبول کیا جاسکتا ہے اور ان سے خدمات بھی لی جاسکتی ہیں ۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے اسوے سے رہ نمائی ملتی ہے۔
ہجرت ِ مدینہ کے سفر میں حضرت ابوبکرؓ نے عبد اللہ بن اریقط نامی ایک غیر مسلم کی خدمات حاصل کی تھیں اور آں حضرت ﷺ نے اس کی رہ نمائی میں ہجرت کی تھی۔ غزوۂ حنین کے موقع پر آپؐ نے صفوان بن امیہ سے، جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، سو سے زائد زرہیں اور گھوڑے وغیرہ عاریتاً حاصل کیے تھے۔ اسی طرح آپؐ نے متعدد مرتبہ سربراہان ِ مملکت سے تحائف قبول کیے تھے۔
اسی طرح مساجد و مدارس وغیرہ کی تعمیر یا ان سے متعلق دیگر کاموں میں غیر مسلموں سے مالی تعاون قبول کرنا جائز ہے۔ بس یہ اطمینان کرلیا جائے کہ وہ مال جائز اور حلال ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو، اس میں حرام کمائی شامل نہ ہو، اسے قبول کرنا مساجد اور مدارس کے مصالح کے خلاف نہ ہو اور مالی تعاون کرنے والے کا مقصد آئندہ احسان جتانا ہو نہ اپنا کوئی کام نکالنا یا کوئی دباؤ ڈالنا۔ ان شرائط کے ساتھ علما نے غیر مسلموں کا مالی تعاون لینے کی اجازت دی ہے۔ (ملاحظہ کیجیے امداد الفتاویٰ، ۲/۶۶۴) البتہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی تعمیر یا مذہبی میلے وغیرہ کے انتظام میں مالی تعاون دینا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ گناہ کے کاموں میں تعاون ہے،جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ (المائدۃ: ۲)