تقسیم میراث کی اہمیت

میرے والد صاحب کا انتقال ہوئے تین سال ہوگئے ہیں ۔ والدہ الحمد للہ ابھی حیات ہیں ۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ سبھی کی شادی ہوچکی ہے۔ ہم سب بھائی مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ کیا میراث تقسیم کرنی ضروری ہے؟ نہ تقسیم کرنے پر کیا وعیدیں ہیں ؟ میراث میں کس کا کتنا حصہ ہوگا؟ ہمارے تین مکانات ہیں ۔ کیا ایک یا دو مکانات فروخت کرکے ورثاء میں تقسیم کرسکتے ہیں ؟
جواب

(۱) کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اسلامی شریعت کی رو سے اس کی میراث لازماً تقسیم ہونی چاہیے۔ میراث میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو میت کی ملکیت میں رہی ہوں ۔ مثلاً مکان، گھریلو سامان، دکان اور اس کا سامان، زمین و جائداد، کارخانہ اور اس کی مشینیں اور آلات، اکاؤنٹ میں محفوظ رقم اور نقدی وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَص وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَط نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاo (النساء: ۷)
’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘
اس آیت میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ میراث چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کی تقسیم کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے تاکیدی حکم ہے۔ اگر کوئی وارث پورے مال پر قبضہ کرلیتا ہے اور اپنے بھائیوں بہنوں اور دیگر رشتے داروں کو ان کے حق سے محروم رکھتا ہے تو اس کی حیثیت غاصب اور حرام مال کھانے والے کی ہے۔ روز قیامت اس کا وبال اس کے سر پر ہوگا۔
مذکورہ مسئلے میں میت کے یہ ورثاء موجود ہیں : بیوی، پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں ۔ قرآن مجید میں ہے کہ کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کی بیوی موجود ہو تو اولاد ہونے کی صورت میں وہ آٹھویں حصے کی مستحق ہوگی۔‘‘ (النساء: ۱۲) اس سے پہلے کی آیت میں یہ بیان بھی موجود ہے کہ اولاد کے درمیان میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔‘‘ (النساء: ۱۱) اس کے مطابق میراث کے پہلے آٹھ حصے کیے جائیں گے۔ آٹھواں حصہ میت کی بیوی کو دینے کے بعد باقی میراث کے بارہ (۱۲) حصے کیے جائیں گے۔ ایک ایک حصہ ہر لڑکی کو دیا جائے گا اور ہر لڑکا دو دو حصوں کا مستحق ہوگا۔
میراث کے مال کو اس کی اصل شکل میں باقی رکھتے ہوئے بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے اور اگر کسی وجہ سے اس میں دشواری ہو تو اسے فروخت کرکے موصولہ رقم کو باہم تقسیم کرلینا چاہیے۔