تقسیم وراثت سے قبل وصیت کا نفاذ

,

ایک شخص کا انتقال ہوا۔ اس کی تجہیز و تکفین کردی گئی۔ اس پر جو قرض تھا وہ ادا کردیا گیا۔ اس کی وصیت دیکھی گئی تو معلوم ہوا کہ ا س نے چالیس فی صد کی وصیت کر رکھی ہے۔ اس کے وارثوں میں دس افراد ہیں۔ ان میں سے آٹھ لوگوں نے چالیس فی صد وصیت پر عمل کرنے کے سلسلے میں رضا مندی ظاہر کردی، لیکن ایک صاحب اس پر تیار نہ ہوئے اور ایک لڑکا نابالغ ہے، اس سے پوچھا ہی نہیں گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس وصیت کو چالیس فی صد سے کم کرکے ایک تہائی (33.3%) پر لاکر نافذ کیا جائے؟ یا اکثریت کی رضا مندی کو دیکھتے ہوئے چالیس فی صد وصیت ہی پر عمل کیا جائے؟ یا کوئی درمیانی طریقہ اختیار کیا جائے کہ جن لوگوں نے رضا مندی ظاہر کی ہے ان کے حصوں میں چالیس فی صد وصیت پر عمل کیا جائےاور جن کی رضا مندی نہیں ہے ان کے حصوں میں ایک تہائی وصیت پر عمل کیا جائے۔

جواب

کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے وارثوں کے درمیان ترکے کا مال تقسیم کرنے سے پہلے قرض کی ادائیگی اور وصیت کے نفاذ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ النساء میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّـةٍ يُّوْصِی بِـهَآ اَوْ دَيْنٍ(النساء: ۱۱)

’’ یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے) جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کردی جائے اور قرض، جو اس پر ہو، ادا کردیا جائے۔ ‘‘

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّـةٍ يُّوْصِيْنَ بِـهَآ اَوْ دَيْنٍ(النساء: ۱۲)

’’جب کہ وصیت جو انھوں نے کی ہو، پوری کردی جائے اور قرض جو انھوں نے چھوڑا ہو، ادا کردیا جائے۔ ‘‘

مِّنْ بَعْدِ وَصِيَّـةٍ تُوْصُوْنَ بِـهَآ اَوْ دَيْنٍ ۗ (النساء: ۱۲)

’’بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔ ‘‘

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّـةٍ يُّوْصٰی بِـهَآ اَوْ دَيْنٍ(النساء: ۱۲)

’’جب کہ وصیت جو کی گئی ہو، پوری کردی جائے اورقرض جو میت نے چھوڑا ہو، ادا کردیا جائے۔ ‘‘

وصیت کے بارے میں دو باتیں اہم اور لازمی ہیں : اول یہ کہ وارثوں کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

إن اللہ قد أعطی کل ذی حق حقه فلا وصیة لوارث(ابو داؤد: ۲۸۷۰، ترمذی: ۲۱۲۱، ابن ماجہ: ۲۷۱۴)

’’اللہ عز و جل نے ہر حق دار کا حق متعین کردیا ہے، اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں۔ ‘‘

دوم یہ کہ کسی غیر وارث کے حق میں ایک تہائی(33.3%) سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔ حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ کے سامنے اپنے نصف مال کی وصیت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:

الثُّلُثُ وَالثّلُثُ کَثِیر۔

’’ایک تہائی کی وصیت کرو، ایک تہائی بہت ہے۔ ‘‘

حدیث میں ہے کہ آپؐ نے مزید فرمایا:

إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ(بخاری: ۴۴۰۹، مسلم: ۱۶۲۹)

’’تم اپنے ورثہ کو مال دار چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں غریب چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ ‘‘

صورتِ مسؤلہ میں مرنے والے نے اگرچہ چالیس فی صد کی وصیت کی ہے، لیکن اسے کل مال کے صرف ایک تہائی(33.3%) میں نافذ کیا جائے گا، باقی ترکہ وارثوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔ اس کے بعد ہر وارث کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنے حصے میں سے، اس شخص کو جسے وصیت کی گئی تھی، جتنا چاہے اپنی مرضی سے دے دے۔