ہم تین بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ والدین کا انتقال ہو گیا ہے۔ دو بہنوں اور دو بھائیوں کی شادیاں ہو گئی ہیں، چھوٹے بھائی کا ذہنی توازن شروع سے درست نہیں تھا، اس لیے والد صاحب نے اسے بڑے بھائی کی سرپرستی اور نگرانی میں دے دیا تھا۔ اس کی شادی نہیں ہوئی ہے اور ایک چھوٹی بہن کی شادی بھی باقی ہے۔ بہ راہ کرم تقسیم وراثت کے سلسلے میں رہنمائی فرمائیں اور درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں :
کیا معذور بھائی کا حصہ نکالنا ضروری ہے؟ وہ اس قابل نہیں ہے کہ جو جائیداد اس کے حصے میں آئے اس کی حفاظت کر سکے۔
ایک بھائی ڈاکٹر اور دوسرا بھائی انجینیر ہے۔ وہ خود کفیل ہیں۔ کیا وراثت میں ان کا حصہ لگانا ضروری ہے؟
جس بہن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ پہلے مال وراثت میں سے اس کی شادی کے اخراجات برداشت کیے جائیں، اس کے بعد وراثت تقسیم کی جائے، یا تمام بھائی مل کر اس کی شادی کرانے میں حصہ لیں اور بعد میں وراثت کی تقسیم کریں۔ یا اس بہن کو مال وراثت کا زیادہ حصہ دے دیا جائے۔ ان میں سے کون سی صورت بہتر ہوگی؟
جواب
قرآن مجید میں وراثت کے احکام بالکل واضح اور صریح ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا [النساء:۷]
(مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرّر ہے۔)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مال وراثت میں تمام وارثوں کا حصہ ہے، چاہے کوئی مرد ہو یا عورت، صحت مند ہو یا مریض، ذہنی طور پر درست ہو یا معذور۔ اس بنا پر آپ کے معذور بھائی کا حصہ لگایا جائے، ان کی سرپرستی بڑے بھائی کریں۔ جیسا کہ والد صاحب نے خواہش اور ہدایت کی تھی۔ اگر انہیں کوئی عذر ہو تو دوسرے بھائی اسے اپنی نگرانی میں لے لیں۔ اُس کے مال میں سے اُس پر خرچ کریں۔ وہ ختم ہو جائے تو صلہ رحمی کے طور پر اس کی کفالت کریں۔
مال وراثت کے استحقاق کی بنیاد ضرورت پر نہیں ہے کہ جو خود کفیل ہو وہ نہ لے، جو ضرورت مند ہو وہ لے لے، یا جسے کم ضرورت ہو وہ کم لے، جسے زیادہ ضرورت ہو وہ زیادہ لے، بلکہ اس کی بنیاد میت سے رشتے داری اور قریبی تعلق پر رکھی گئی ہے۔ کسی شخص کے تین بیٹے ہیں تو وہ سب وراثت میں برابر حصہ پائیں گے، چاہے ان کے درمیان مالی حیثیت سے تفاوت ہو، کوئی مال دار ہو، کوئی غریب۔ مال داری یا غربت کی وجہ سے ان کے حصوں میں کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ البتہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے کہ جس وارث کو، مال کی ضرورت نہ ہو وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنا حصہ کلی یا جزئی طور پر چھوڑ سکتا ہے یا کسی دوسرے ضرورت مند وارث کو دے سکتا ہے۔
مال وراثت پانے میں کمی بیشی ازدواجی حالت کو سامنے رکھ کر بھی نہیں کی جائے گی کہ جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو اسے زیادہ دیا جائے اور دوسروں کو کم۔ بلکہ شریعت نے تو چھوٹے بچے کا بلکہ اس بچے کا بھی وراثت میں حصہ لگایا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے۔
اس بنا پر جس بہن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے وہ بھی وراثت میں اپنا متعین حصہ یعنی بھائی کے حصے کا نصف پائے گی۔ قرآن کی اصولی ہدایت ہے: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیینِ [النساء:۱۱] (مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے)۔
مالِ وراثت کی تقسیم کو شادی کے اخراجات سے منسلک کرنا درست نہیں ہے۔ تمام بھائیوں اور بہنوں کو وراثت میں سے ان کا حصہ دے دیا جائے۔ اس کے بعد بہن کی شادی کے اخراجات میں ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لے۔ شادی میں شاہ خرچیوں سے بچا جائے اور سادگی کے ساتھ شادی کی تقریب انجام دی جائے۔
مال وراثت کی تقسیم میں اگر ہمدردی، صلہ رحمی اور حسن سلوک پیش نظر رہے تو اختلافات نہیں پیدا ہوتے اور خوب صورتی سے معاملات نپٹالیے جاتے ہیں۔
May 2025