جواب
اللہ کے رسول ﷺ کا توکّل علی اللہ مثالی تھا، اس کے باوجود آپ ہر ممکن تدبیر اختیار کرتے تھے اور تمام دنیاوی اسباب اپناتے تھے ۔ اس طرح آپؐ نے ہمیں سکھایا ہے کہ تدبیر اختیار کرنا توکّل کے منافی نہیں ہے ۔
دشمنوں نے مکّہ میں رہنا دوبھر کردیا تو آپؐ نے مدینہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ منصوبہ کے مطابق ایک دن ٹھیک دوپہر میں نکلے جب لوگ عموماً گھروں میں رہتے تھے، تاکہ کسی کی آپ پر نظر نہ پڑے۔ مدینہ مکّہ کے شمال میں تھا، لیکن آپ جنوب کی طرف روانہ ہوئے اور کچھ فاصلے پر واقع غار ثور میں جا چھپے۔ وہاں تین دن مقیم رہے، تاکہ آپ کے دشمن شمال میں آپ کو تلاش کرتے کرتے تھک کر مایوس ہوجائیں ، تب آپ اپنا سفر شروع کریں ۔ ایک طرف یہ تدبیریں تھیں دوسری طرف آپ کا توکّل تھا کہ جب دشمن آپ کو تلاش کرتے ہوئے غار کے دہانے پر پہنچ گئے اور ان کے قدموں کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ پریشان ہوگئے تو آپؐ نے انھیں تسلّی دیتے ہوئے فرمایا: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا(التوبۃ۴۰)’’ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ دشمنوں سے ہر جنگ کے موقع پر آپؐ نے خوب تیّاری کی، جتنے گھوڑے اونٹ دست یاب ہو سکتے تھے، فراہم کیے، تلوار، تیر اور دیگر اسلحہ کا نظم کیا، میدانِ جنگ کا باریکی سے جائزہ لے کر صفوں کو ترتیب دیا، پھر ان تمام تدبیروں سے فارغ ہونے کے بعد دعا کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے ۔ اللہ کے رسولﷺ کا یہ اسوہ ہر مومن کو سکھاتا ہے کہ اس کی زندگی میں توکّل اور تدبیر کے درمیان توازن ہونا چاہیے ۔
کورونا(Covid-19)نامی مرض کا قہر پوری دنیا میں جاری ہے۔ تمام انسانی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں ۔ تمام لوگ خوف و دہشت میں مبتلا ہیں ۔اس موقع پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس مہلک بیماری سے تحفّظ کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جائے، اس کے بعد امید رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس سے حفاظت فرمائے گا۔کورونا وائرس چھینک کے ذرّات کے ذریعے یا ہاتھ ملانے سے ایک شخص سے دوسرے تک پہنچتا اور اس کو متاثر کرتا ہے۔ اس لیے چھینکتے وقت رومال یا ٹشوپیپر کا استعمال کیا جائے، بھیڑ بھاڑ کی جگہوں سے بچا جائے، فاصلہ رکھا جائے اور ہاتھ ملانے سے گریز کیا جائے ۔ یہ وائرس گندگی میں پنپتا ہے، اس لیے صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔
اس صورت حال میں توکّل اور تدبیر دونوں ضروری ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تقدیر میں لکھ رکھا ہوگا وہ تو ہو کر رہے گا۔اگر اس بیماری میں مبتلا ہونا ہمارے مقدّر میں ہے تو تمام تدابیر اختیار کرنے کے باوجود اس سے نہیں بچا جا سکتا، اس لیے کسی طرح کے پرہیز اور احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عقیدۂ تقدیر کی غلط تعبیر ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ کا عمل یہ رہا ہے اور یہی آپ نے اپنی امّت کو سکھایا ہے کہ تحفّظ کے تمام اسباب اختیار کیے جائیں اور تمام تدابیر پر عمل کیا جائے، پھر اللہ پر توکّل کیا جائے ۔