ایک خاتون کو اس کے شوہر نے چاربرس سے چھوڑ رکھاہے۔ وہ اپنے میکے میں والدین کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کی دوبیٹیاں ہیں۔ ان چاربرسوں میں شوہر نے اسے خرچ کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔ اب چاہتا ہے کہ خاتون خلع لے لے۔ کیا اس طرح جبری خلع جائز ہے؟ اس خاتون کے والدین بہت غریب ہیں۔ انھوں نے مشکل سے اس کی شادی کی، اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دیا۔ اب یہ شخص بیٹیوں کو ان کی ماں کے پاس چھوڑکر علیٰحدہ ہونا چاہتا ہے۔ اس خاتون کو اب کیاکرنا چاہیے؟ معاملات کو سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرلی گئی، لیکن شوہر کا جواب بس یہ ہے کہ خلع لے لو، ورنہ اسی طرح لٹکائے رکھوں گا۔ خاتون کے والد کو فالج ہوگیا ہے ۔ وہ چھوٹی موٹی جاب کرکے بچے پالنے پر مجبورہے۔کیا وہ شوہر کے خلاف کیس کرسکتی ہے؟یا ایسی حالت میں کیس کرنا گناہ ہوگا؟
جواب
ازدواجی زندگی میں اسلام نے شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق متعین کردیے ہیں۔ شوہر کو حکم دیا ہے کہ وہ بیوی بچوں کی نگرانی کرے، انھیں تحفظ فراہم کرے اور ان کی ضروریات پوری کرےا ور بیوی کو حکم دیا ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے، اس کے غائبانہ میں گھر کی نگرانی اور بچوں کی پرورش کرے۔ اگر ان ہدایات پر زوجین عمل کریں تو ازدواجی زندگی خوش گوار گزرتی ہے اور گھر میں سکون رہتا ہے۔
بسااوقات زوجین کے درمیان ایک دوسرے سے شکایات پیدا ہوجاتی ہیں اور تنازعات سرابھارنے لگتے ہیں۔ اس صورت میں قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں زوجین خود، بغیر کسی اور کو شامل کیے، اپنے اختلافات دوٗرکرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس میں انھیں کام یابی نہ ملے تو اپنے اپنے خاندان کے بزرگوں تک معاملہ لے جائیں۔ وہ سب مل بیٹھ کر شکایات دور کرنے کی تدابیر اختیار کریں۔ یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ شوہر بیوی کی کسی بات پر ناراض ہوکر اسے اپنے سے دوٗر کردے، اسے اس کے میکے بھیج دے، پھر اس سے کوئی رابطہ نہ رکھے، یا وہ بیوی کو بے یارومددگار چھوڑ کر خود کہیں اور چلاجائے، یا بیوی شوہر سے ناراض ہوکر خود میکے میں جابیٹھے اوراس سے بالکلیہ رابطہ منقطع کرلے۔
اگر مصالحت وموافقت کی تمام تدابیر ناکام ہوجائیں تو علیٰحدگی کی کوئی صورت اختیار کی جاسکتی ہے یا تو شوہر طلاق دے دے۔ اس صورت میں ’طلاق احسن‘ کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، یعنی شوہر عورت کی پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے۔ عدّت کے بعد دونوں کا رشتہ ختم ہوجائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ عدّت کے دوران رجوع کا موقع رہتاہے اور اگر عدّت گزرجائے تو بعد میں دوبارہ نئے مہر کے ساتھ دونوں کا نکاح ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عورت شوہر سے خلع کامطالبہ کرے اور شوہر اسے منظور کرلے۔ اس صورت میں اگر عورت مہرپاچکی ہے تو شوہر کے مطالبے پراسے واپس کرنا ہوگا۔
آج کل ہندوستانی پارلیمنٹ میں منظور شدہ تین طلاق کے قانون کے عواقب سے بچنے کے لیے لوگ ایک طلاق دینے میں بھی احتیاط کرنے لگے ہیں۔ اس لیے وہ تنازعہ کے موقع پر بیوی سے کہتے ہیں کہ میں طلاق نہیں دوں گا، تم چاہو تو خلع لے لو۔ اگر بیوی ہر حال میں رشتہ ختم کرنا اور شوہر سے پیچھاچھڑانا چاہتی ہو تو بہ درجہ مجبوری وہ شوہر کا یہ مطالبہ منظورکرسکتی ہے، لیکن یہ بات واضح رہے کہ بیوی کو خلع کا مطالبہ کرنے پر مجبور کرنا درست نہیں۔جبری خلع اسلام میں جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں صریح الفاظ میں حکم دیا گیا ہے
وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ (النساء۱۹)
’’اور نہ یہ حلال ہے کہ تم انھیں (یعنی بیویوں کو) تنگ کرکے اس مہر کا کچھ حصہ اڑالینے کی کوشش کرو جو تم انھیں دےچکے ہو۔‘‘
علیٰحدگی کے بعد بچوں کی کفالت باپ کی ذمہ داری ہے۔ بچے چھوٹے ہوں تو وہ ماں کے پاس رہیں گے اور باپ کو ان سے وقتاً فوقتاًملاقات کرنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کا حق ہوگا، ساتھ ہی اسے ان کے جملہ مصارف برداشت کرنے ہوں گے۔ جو باپ اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتے وہ گناہ گار ہوں گے اور بارگاہ الٰہی میں ان کی پکڑ ہوگی۔ بچوں سے باپ کی لاپروائی کی وجہ سے جو مائیں بچوں کی کفالت کے لیے جدوجہد کرتی ہیں اور کچھ کماکر ان کے کھانے پینےکا انتظام کرتی ہیں وہ بڑے اجر کی مستحق ہیں۔
بچوں کی کفالت پرباپ کو مجبورکرنےکے لیے کوئی بھی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہے اس معاملے میں خاندان کے بزرگوں کو شامل کیاجائے، سماجی دبائو ڈالنے کی کوشش کی جائے، دارالقضاء سے رجوع کیا جائے اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو فیملی کورٹ یاملکی عدالت میں شوہر کے خلاف کیس دائر کیاجاسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، عورت گناہ گار نہ ہوگی۔