جواب
اس خط سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں بعض مسلمانوں کے ذہنوں پر عقلیت پسندی کس حد تک غالب آگئی ہے؟ اور وہ دین کے نصوص پر کس انداز سے غور کرنے لگے ہیں ۔ کوئی حدیث چاہے کتنی ہی بے غبار ہو اور چاہے وہ معتبر راویوں سے مروی اور حدیث کی مستند کتابوں میں درج ہو، لیکن اگر وہ کسی کے عقلی چوکھٹے میں فٹ نہیں ہو رہی ہے تو اس شخص کو اسے نا درست قرار دینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا اور وہ بلا جھجک یہ فیصلہ کر بیٹھتاہے کہ اس میں نبی ﷺ پر ایک سنگین الزام لگایا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے استنباط پر نظر ثانی کی جائے اور اپنے فہم کو قصوروار قرار دیا جائے۔
روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’نبی ﷺ جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے۔‘‘ اس میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ آپؐ آٹھ بجے صبح سوکر اٹھتے تھے۔ طلوعِ فجر کے وقت کو بھی ’صبح‘ کہتے ہیں ۔ اس کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک ایک گھنٹہ سے زائد وقت رہتا ہے۔ اس عرصے میں کسی بھی وقت فجر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ذات ِ گرامی امت کے تمام افراد کے لیے اسوہ ہے۔ بہت سے کام آپؐ نے بیان جواز کے لیے کیے ہیں اور امہات المومنین نے ان کی روایت بھی اسی مقصد سے کی ہے کہ افراد ِ امت کو معلوم ہوجائے کہ فلاں کام میں جواز کی حد کہاں تک ہے۔ کیا اگر کوئی شخص رات میں جنبی ہوجائے تو اس کے لیے فوراً اٹھ کر غسل کرنا واجب ہے؟ یا وہ رات کا بقیہ حصہ اسی حالت میں گزار کر، صبح نماز ِ فجر سے قبل غسل کرسکتا ہے؟ رسول ﷺ کے اس عمل نے ہم جیسے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے لیے سہولت کی راہ دکھائی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مسجد نبوی میں آپؐ ہی امامت کرتے تھے۔ کبھی کسی وجہ سے آپؐ کو مسجد میں آنے میں تاخیر ہوجاتی تو صحابۂ کرام آپؐ کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ایک وقت کی نماز کے بارے میں بھی (سوائے مرض الموت کے) یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ مسجد نبوی سے متصل اپنے گھر میں رہے ہوں اور آپؐ نے مسجد میں آکر صحابہ کی امامت نہ کی ہو۔