ایک صاحب کی عمرپینسٹھ(۶۵) برس اور ان کی اہلیہ کی عمر پینتالیس(۴۵) برس ہے۔ ان کے پانچ بچے (دو لڑکیاں اور تین لڑکے) ہیں۔ تمام بچوں کی عمریں بیس(۲۰) برس سے اوپرہیں۔ اب شوہر اور بیوی دونوں اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ شوہر اپنے کنبہ کی اچھی طرح نگہ داشت کرتا ہے اور بیوی بھی تما م بچوں کا خوب خیال رکھتی ہے۔
شادی کے بعد شوہر نے ملازمت کی وجہ سے خلیج میں زیادہ وقت گزارا ہے اور بیوی بچے ہندوستان میں رہتے تھے۔ وہ بیوی کو کچھ وقت اپنے ساتھ خلیج میں رکھنا چاہتا تھا اور بیوی بھی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی تھی، لیکن مالی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے خلیج میں اپنے ساتھ رکھنے کا متحمل نہیں تھا، اس لیے بیوی بچوں کو ہندوستان میں ہی رہنا پڑا۔ تاہم شوہر تین برس قبل ملازمت سے ریٹائر ہوااور وہ اپنے کنبہ کے ساتھ رہنے کے لیے ہندوستان واپس آیا، تب سے شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے ۔ اب بیوی کہتی ہے کہ اسے شوہر سے پوری زندگی میں کبھی خوشی نہیں ملی۔ معاملہ اس وقت اور بڑھ گیا جب اس نے کہا کہ اس کا شوہر جسمانی قربت کے دوران جنسی تسکین کے قابل نہیں ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا بڑا فرق ہے۔ اب شوہر اس کے ساتھ ہم بستری کا اہل نہیں ہے، جب کہ عورت اب بھی جنسی احساسات رکھتی ہے۔ وہ اب اپنے شوہر سے کہہ رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،اسے طلاق چاہیے۔ بچوں نے صورت ِ حال کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی۔ انھوں نے اپنی ماں کو بہت سمجھایا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں طلاق کو پسند نہیں کیا جاتا۔علیٰحدگی کے بعد لوگ ہمارے کنبے پر انگلیاں اٹھائیں گے اور ہمارے رشتوں میں دشواریاں پیدا ہوں گی ، لیکن وہ عورت کچھ نہیں سنتی۔ وہ اپنے بچوں سے کہہ رہی ہے کہ تم میری صورت حال کو نہیں سمجھو گے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں اسلام کیا رہ نمائی کرتا ہے؟ کیا عورت کا اپنے شوہر سے الگ ہوجانے پر اصرار درست ہے ؟یا اسے اپنی جنسی خواہش پر قابو رکھنا چاہیے؟طویل عرصہ ایک ساتھ گزارنے کے بعد اب اگر شوہر جنسی تعلق پر قادر نہیں ہے تو کیا عورت کو اس سے علیٰحد گی حاصل کرنے کا حق مل جاتا ہے؟کیا بچوں یا خاندان کے دوسرے لوگوں کاعورت کو علیٰحدگی کا مطالبہ کرنے سے روکنا صحیح ہے ؟
جواب
سوال میں دریافت کردہ مسئلہ سماجی زندگی کے پیچیدہ مسائل میں سے ہے۔اس پر کئی پہلوؤں سے غور کیا جا سکتا ہے
۱-نکاح کے بعد پسندیدہ یہ ہے کہ زوجین زیادہ سے زیادہ ایک ساتھ رہیں ۔اگر شوہر ملازمت یا تجارت کی وجہ سے وطن سے دوٗر رہے تو کوشش کرے کہ وہاں بھی بیوی کو ساتھ رکھے ۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو توکچھ وقفے سے بیوی کے پاس کچھ وقت گزارنے کے لیے چلا جایا کرے، یا بیوی کو اپنے پاس بلا لیا کرے۔جو لوگ معاش کی تلاش میں طویل عرصہ خلیج میں گزارتے ہیں اور ان کی بیوی بچے وطن میں رہتے ہیں ان کے درمیان بسا اوقات خوش گوار تعلقات قائم نہیں رہ پاتے، شکایات پیدا ہوجاتی ہیں اور نفسیاتی مسائل سر ابھار لیتے ہیں۔
۲- بیوی کی کچھ شکایات بجا ہو سکتی ہیں، لیکن اس کا یہ کہنا کہ اسے پوری ازدواجی زندگی میں شوہر کی طرف سے کوئی خوشی نہیں ملی، درست معلوم نہیں ہوتا۔ شوہر نے اس کی کفالت کی، نفقہ اور سکنیٰ (رہائش) فراہم کی، کسی حد تک اس کی جنسی خواہش کی تکمیل کی، تبھی تو پانچ بچے ہوئے ہیں۔ اس لیے نکاح کے نتیجے میں عورت کو جو تحفظ حاصل ہوا ہے، اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔اس معاملے میں عموماًعورتوں سے کوتاہی ہوتی ہے۔ اگر انہیں اپنے شوہروں سے کچھ شکایات پیدا ہوجائیں تو وہ ان سہولیات کا بھی انکار کردیتی ہیں جو سابق میں انہیں شوہروں سے حاصل تھیں۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کے مجمع میں خطاب کیا تو فرمایا’’اے گروہ ِ نسواں! صدقہ کیا کرو، میں نے تمھاری اکثریت جہنم میں دیکھی ہے۔ ‘‘انھوں نے سوال کیا’’ اے اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ہوگا؟‘‘آپ نے فرمایا
تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَ تَکْفُرْنَ العَشِیرَ ( بخاری۳۰۴،مسلم۷۹)
’’ تم بہت زیادہ لعن طعن کرتی ہو اور شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔‘‘
۳- عمر کے ہر مرحلے میں جنسی تسکین مرد اور عورت دونوں کا بنیادی حق ہے۔ اسی وجہ سے اگرچہ زوجین کی عمروں میں تفاوت کو شریعت کی روشنی میں گواراکیا گیا ہے، لیکن قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان عمروں کی یکسانیت پسندیدہ ہے۔اب اگر عورت کسی مرحلہ میں دعویٰ کرتی ہے کہ شوہر سے اس کی جنسی تسکین نہیں ہو رہی ہے اور اس بنا پر وہ خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا یہ مطالبہ درست ہے۔
۴- بچوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ سماج میں طلاق کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب زوجین طویل عرصہ ساتھ رہ چکے ہوں۔ طلاق کے بعد لوگ اس خاندان پر انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور بالخصوص لڑکیوں کے نکاح میں دشواری پیش آتی ہے۔ عورت کو کوئی فیصلہ کرتے وقت اس سماجی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔اگر وہ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے اپنے جذبات کی قربانی دیتی ہے تو بارگاہ ِ الٰہی میں اجر کی مستحق ہوگی۔
۵- اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ کیا شوہر سے طلاق لینے کے بعد اب اس عمر میں عورت کا دوسرا مناسب نکاح آسان ہے؟ اگر عورت طلاق لینے کے بعد بھی بے نکاح رہے تو طلاق لینے سے کیا فائدہ ہوا؟ اس سے تو بہتر ہے کہ وہ نکاح کو ختم نہ کرے اور اگر شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو اپنے کسی بیٹے کے پاس رہے۔
خلاصہ یہ کہ اس معاملے میں عورت کو سمجھانے بجھانے کی بس ایک حد تک کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وہ مان جائے تو بہتر ہے ، نہ مانے اورشوہر سے علیٰحدگی کے اپنے مطالبے پر بہ ضد ہو تو خوب صورتی سے علیٰحدگی کی کارروائی کروا دینی چاہیے۔
۶- یہاں یہ بھی یاد دلانا مفید ہوگا کہ بسا اوقات فریقین یا کسی ایک فریق کی ضد کی وجہ سے نکاح ختم کرنے کی نوبت آجاتی ہے، لیکن بعد میں دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ شریعت میں اسی لیے ایک طلاق کا طریقہ رکھا گیا اور دو بار نکاح بحال کرنے کا موقع دیا گیا ہے،تاکہ بعد میں دوبارہ رشتہ ازدواج قائم کرنے کی گنجائش رہے۔اس لیے تفریق کی صورت میں بھی ماحول کو زیادہ سے زیادہ خوش گوار رکھنا چاہیے، تاکہ واپسی کا فیصلہ کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔