حالت ِ سفر میں جمع بین الصلاتین

کیا حالت سفر میں جمع بین الصلاتین کی اجازت ہے؟
جواب

جمع بین الصلاتین سے مراد ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر میدان ِ عرفات میں ظہر کے وقت ظہر اور عصر اور مزدلفہ میں عشا کے وقت میں مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائی تھیں ۔ فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ اس رخصت کی علت سفر ہے یا یہ حج کے ساتھ خاص ہے؟ امام ابو حنیفہؒ اور بعض دیگر فقہا مثلاً حسن بصریؒ، ابن سیرینؒ، مکحولؒ اور نخعیؒ وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ حج کے ساتھ خاص ہے۔ دیگر مواقع ِسفر پر ظہر اور عصر یا مغرب اور عشا کو جمع کرنا درست نہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات تواتر سے ثابت ہیں اور جن احادیث میں حج کے علاوہ دیگر مواقع پر رسول اللہ ﷺ کے دو نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے، وہ اخبار ِ آحاد ہیں ۔ اس لیے خبر واحد کی بنیاد پر تواتر کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان مواقع پر غالباً رسول اللہ ﷺ نے جمع صوری کی شکل اختیار فرمائی تھی۔ یعنی ظہر کو موخر کرکے اس کے آخری وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں ادا فرمایا تھا۔ اسی طرح مغرب اور عشا میں بھی کیا تھا۔
دیگر ائمہ ثلاثہ (امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ) حالت سفر میں جمع بین الصلاتین کی اجازت دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں جائز ہیں ۔ (امام اوزاعیؒ کے نزدیک صرف جمع تاخیر جائز ہے، جمع تقدیم نہیں ) ان کی دلیل وہ بہت سی احادیث ہیں جن میں متعدد مواقع سفر پر رسول اللہ ﷺ کے ظہر اور عصر، اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرنے کا تذکرہ ہے۔ مثلاً حضرت انس بن مالکؒ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ آپؐ کا معمول بیان کرتے ہیں کہ آپؐسفر میں جمع بین الصلاتین کیا کرتے تھے۔ (۱) حضرت معاذؓ اور حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ سفر تبوک میں آپؐ ظہر و عصر اور مغرب و عشا ایک ساتھ ادا فرماتے تھے۔ (۲)
جمع بین الصلاتین کی احادیث اتنی کثرت سے ہیں کہ انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں جمع صوری پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس رخصت کی علت سفر کو قرار دیا جائے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بعض متاخرین احناف مثلاً علامہ سید سلیمان ندوی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بھی اس کے قائل تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔