حاملہ عورت کی عدّت

شوہر کے انتقال کے ایک ہفتہ بعد بیوہ خاتون کے یہاں ولادت ہوگئی۔ ان کے لیے عدت کے کیا احکام ہیں؟

جواب

قرآن مجید میں عدت کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے۔ کوئی عورت بیوہ ہوجائے تواس کی عدت چارماہ دس دن بیان کی گئی ہے۔(البقرۃ ۲۳۴) اور کوئی عورت حمل سے ہوتو اس کی عدت اس وقت تک ہے جب تک ولادت نہ ہوجائے۔ قرآن مجید میں ہے

وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ۝۰ۭ      (الطلاق۴)

’’اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حدیہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔‘‘

قرآن مجید کے اس صریح حکم کی بناپر تمام علماوفقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل تک ہے، لیکن ان کے درمیان اس امر میں اختلاف ہوگیا ہے کہ اگر عدت کی دو صورتیں جمع ہوجائیں، یعنی کوئی عورت بیوہ ہوجائے اور وہ حاملہ بھی ہو تو وہ کون سی عدت گزارے گی؟

ابن ابی لیلیٰ  ؒ اور سحنونؒ کہتے ہیں اور صحابہ میں سے حضرت علیؓ اور (ایک روایت کے مطابق) حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی رائے ہے اور شیعہ امامیہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ بیوہ حاملہ کی عدت ’آخر الاجلین‘ ہے، یعنی دونوں عدتوں میں سے جو طویل ہووہی اس کی عدت ہوگی۔ مثلاً اگربچہ چار ماہ دس دن سے پہلے پیدا ہوجائے تو اسے چار ماہ دس دن تک عدت گزارنی ہوگی اور اگر اس مدت میں اس کے یہاں ولادت نہیں ہوئی تو اس کی عدت اس وقت پوری ہوگی جب وضع حمل ہوجائے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بیوہ کی جو عدت (چارماہ دس دن ) بیان کی گئی ہے اس میں حاملہ اور غیرحاملہ دونوں قسم کی عورتیں شامل ہیں اور وضع حمل کی عدت کا اطلاق بیوہ عورت پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے زیادہ مدت والی عدت کو نافذ کرنے سے دونوں آیتوں میں مذکور احکام پر عمل ہوجائے گا۔

جمہور فقہا کہتے ہیں اور صحابۂ کرام میں سے حضرات عمربن الخطاب، عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی بھی یہی رائے ہےکہ حاملہ عورت کی عدت کی آخری حدوضع حمل ہے۔اس کے یہاں ولادت ہوتے ہی اس کی عدت پوری ہوجائے گی، خواہ یہ ولادت شوہر کی وفات کے تھوڑی دیر کے بعد ہی ہوجائے، یا حمل چارماہ دس دن سے زیادہ عرصہ جاری رہے، بہر حال وضع حمل ہونے کے ساتھ اس کی عدت پوری ہوگی۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ سورہ طلاق کی آیت ۴ میں حاملہ عورتوں کی جو عدت بیان کی گئی ہےوہ مطلقہ اور بیوہ سب کو شامل ہے۔ سورہ بقرہ میں بیوہ کی عدت مذکورہے اور سورہ طلاق میں حاملہ کی عدت کا بیان ہے۔سورہ طلاق سورہ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ بعد کے حکم نے پہلے حکم کو غیرحاملہ بیوہ کے لیے خاص کردیا ہے۔

جمہور فقہا کی مضبوط دلیل عہد نبوی میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے ۔ قبیلۂ اسلم کی ایک خاتون حضرت سبیعہ بنت حارثؓ جو حضرت سعد بن خولہؓ کی بیوی تھیں، حجۃ الوداع کے موقع پر حالت ِ حمل میں بیوہ ہوگئیں۔ شوہر کی وفات کے چند روز بعد ان کے یہاں ولادت ہوئی۔ انھوں نے دوسرے نکاح کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے کہا کہ تم چارماہ دس دن سے قبل نکاح نہیں کرسکتیں۔ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے اس معاملے میں فتویٰ پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہوگئی ہو۔ اب چاہو تو دوسرا نکاح  کرسکتی ہو۔(بخاری۵۳۲۰، ۵۳۱۹،۵۳۱۸،۳۹۹۱، مسلم ۱۴۸۴)

یہ فقہا یہ بھی کہتے ہیں کہ حائضہ عورت کے سلسلے میں عدت کا مقصد برأت رحم کا علم ہے، یعنی عورت حمل سے نہیں ہے۔ وضع حمل سے یہ مقصد پورا ہوجاتاہے۔

وضع حمل کے ذریعے عدت پوری ہوجانے پر جمہور فقہا کا اتفاق اس صورت میں ہے جب عورت کے یہاں نارمل ولادت ہوئی ہو۔ لیکن اگر اسقاطِ حمل ہو اور مردہ بچے کے انسانی نقوش نمایاں نہ ہوئے ہوں تو اس صورت میں احناف کے نزدیک وضع حمل سے عدت مکمل نہ ہوگی۔ شوافع اور حنابلہ سے دونوں طرح کے اقوال منقول ہیں، یعنی ایک قول کے مطابق چوں کہ وضع حمل سے برأت رحم کا اثبات ہوگیا ہے اس لیے عدت کو مکمل سمجھا جائے گا اور دوسرے قول کے مطابق عدت مکمل نہیں ہوگی۔مالکیہ کے نزدیک اسقاط کے نتیجے میں مردہ پیدا ہونے والے بچے کے انسانی نقوش نمایاں ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں، دونوں صورتوں میں برأت ِ رحم کی بناپر عدت مکمل سمجھی جائے گی۔