حدیث نبوی کی صحت و عدمِ صحت کی پہچان

’کیا غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟‘ کے عنوان سے آں جناب نے ایک سوال کا جو جواب دیا ہے اس میں سودی لین دین کی شناعت بیان کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے، جس کا مضمون یہ ہے: ’’سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘ یہ حدیث مجھے ’موضوع‘ یعنی من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایسے ناشائستہ انداز سے کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ سود کی حرمت ثابت کرنے والی اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔ اس لیے ایسی غیر معتبر اور ثقاہت سے گری ہوئی احادیث سے اجتناب اولیٰ ہے۔
جواب

کسی حدیث کی صحت یا عدمِ صحت جانچنے کے لیے محدثین کرام نے مختلف اصول وضع کیے ہیں ۔ ان کا تعلق روایت سے بھی ہے اور درایت سے بھی۔ مثلاً سند ِ حدیث میں کسی راوی کا نام چھوٹ گیا ہو یا کسی راوی کا حافظہ کم زور ہو یا اس نے ضبط ِ الفاظ میں تساہل سے کام لیا ہو یا اس کا اخلاق و کردار مشتبہ ہو یا وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولتا ہو تو اس کی روایت کو ضعیف کی اقسام میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح روایتوں کی داخلی شہادتوں سے بھی انھیں پرکھا گیا ہے۔ مثلاً کسی روایت میں لفظی یا معنوی رکاکت پائی جائے، وہ حکمت و اخلاق کی عام قدروں کے منافی ہو، حس و مشاہدہ اور عقل عام کے خلاف ہو، اس میں حماقت یا مسخرہ پن کی کوئی بات کہی گئی ہو، اس کا مضمون عریانیت یا بے شرمی کی کسی بات پر مشتمل ہو وغیرہ تو اس کا ضعیف و موضوع ہونا یقینی ہے۔
حرمت سود کی شناعت بیان کرنے والی جو حدیث اوپر سوال میں نقل کی گئی ہے، اس کا موضوع ہونا کس اعتبار سے ہے؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ انداز ِ سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر نقد درایت کے پہلو سے ہے۔ لیکن اس بنیاد پر اسے موضوع قرار دینا درست نہیں ۔ ماں کی عزت و احترام انسانی فطرت میں داخل ہے۔ تمام مذاہب میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ تقدس کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ زنا و بدکاری تو دور کی بات ہے، کوئی سلیم الفطرت انسان اپنی ماں کی طرف بری نظر سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ سود کے انسانی سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کا شکار ہونے والوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں اور سودی کاروبار کرنے والوں کے اخلاق و کردار پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کی خباثت و شناعت واضح کرنے کے لیے اسے ’ماں کے ساتھ زنا‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں عریانیت یا ناشایستگی کی کوئی ایسی بات نہیں ، جس کی بنا پر اس کو موضوع قرار دیا جائے۔
ایک زمانے میں منکرین ِ حدیث نے یہ وتیرہ بنا لیا تھا کہ جو حدیث بھی کسی وجہ سے انھیں اچھی نہ لگے، اسے بلا تکلف موضوع قرار دے دیتے تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’سنت کی آئینی حیثیت‘ میں ان کا زبردست تعاقب کیا ہے اور ان کے نام نہاد دعووں کا ابطال کیا ہے۔ جن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اشکالات پیدا ہوتے ہیں ، جن کی ایک مثال اوپر درج سوال میں پیش کی گئی ہے، انھیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔