جواب
قرآن کریم میں ہے :
اِنَّ الصَّلٰوۃَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۱۰۳ (النساء: ۱۰۳)
’’نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیٔ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر نمازیں ان کے اوقات میں فرض کی گئی ہیں ۔ کسی نماز کو اس کا وقت شروع ہونے سے پہلے نہیں پڑھا جاسکتا اوراگر اس کے وقت میں اسے ادا نہیں کیا جائے گا تووہ قضا ہوجائے گی۔
یہ بات درست ہے کہ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ بغیر کسی عذر کے حضر میں دونمازیں جمع کی ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے، ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں ۔‘‘ ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعیدسے پوچھا کہ آپؐ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نےفرمایا : آپؐ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشقت میں نہ پڑے ۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر ) صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ’سفر ‘کی جگہ ’بارش ‘ کا لفظ ہے ۔
اس حدیث سے حضر میں جمع بین الصلوٰتین پر استدلال کرتے وقت یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ حضرت ابن عباسؓ نے صرف ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کی روایت کی ہے ۔پوری حیاتِ طیبہ میں کسی اور موقع پر آپؐ سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک موقع پر کسی شدید ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا ،ورنہ آپؐ نمازوں کو ان کے اوقات پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے ۔
ان روایات پرامام نوویؒ نے شرح مسلم میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیاجارہاہے:
’’صحیح مسلم میں مذکوران روایات کے سلسلے میں علماء نے مختلف تاویلات کی ہیں اور مختلف موقف اختیار کیے ہیں ۔ ترمذیؒ نے اپنی کتاب کے آخرمیں لکھا ہے:’’میری کتاب میں ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جس کے متروک العمل ہونے پر امت کا اتفاق ہوگیا ہو، سوائے حدیث ابن عباس کے ، جس میں مدینہ میں (یعنی حضر میں ) رہتے ہوئے بغیر خوف اور بغیر بارش کے جمع بین الصلوٰتین کی بات کہی گئی ہے ۔‘‘.........یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ اس کے متروک العمل ہونے پر علماءکا اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس سلسلے میں ان کے مختلف اقوال ہیں :
بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ آپؐ نے بارش کے عذر کی بنا پر دونمازوں کو جمع کیاتھا۔ یہ قول بعض قدیم اکابر کا ہے، لیکن ناقابل قبول ہے، اس لیے کہ دوسری روایت میں صراحت ہے کہ وہ بارش کا موقع نہ تھا۔
بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ اس وقت بدلی تھی ۔آپؐ نے ظہر کی نماز ادا کی ۔پھر بدلی چھٹ گئی اور اندازہ ہوا کہ عصر کا وقت شروع ہوگیا ہے ، چنانچہ آپؐ نے عصر کی نماز ادا کرلی۔ یہ تاویل بھی درست نہیں ، اس لیے کہ اس موقع پرمغرب اورعشاء کی نمازوں کو بھی اکٹھی پڑھنے کی صراحت ہے اور ان میں وقت کے سلسلے میں وہ اشتباہ نہیں ہوسکتا جو ظہر وعصر میں ہواتھا۔
بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ آپؐ نے پہلی نماز (یعنی ظہر اور مغرب) کو آخروقت میں اور دوسری نماز(یعنی عصر اور عشاء) کو اول وقت میں ادا فرمایاتھا۔ یہ صورت ظاہری جمع کی تھی ۔ یہ تاویل بھی کم زور ہے ، اس لیے کہ یہ ظاہری صورت کے خلاف ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے عمل پراس سے استدلال کیاتھا اور حضرت ابوہریرہؓ نے ان کی تائید کی تھی،جس کی بناپر یہ تاویل قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ایسا آپ نے مرض یا اسی طرح کے کسی اور عذر کی بناپر کیا تھا۔ اس تاویل کو امام احمد ،قاضی حسین ، خطابی، متولی اوررویانی نے اختیارکیاہے۔
ائمہ کی ایک جماعت وقتِ ضرورت دو نمازوں (یعنی ظہر وعصر اورمغرب وعشاء) کو جمع کرنا جائز قرار دیتی ہے۔ بہ شرطے کہ اس کو عادت نہ بنالیا جائے۔ یہ ابن سیرین اوراشہب مالکی کا قول ہے۔ اسے خطابی نے شوافع میں سے قفال اورشاشی کبیر سے ، انہوں نے ابواسحاق مروزی سے اور انہوں نے اصحاب الحدیث کی ایک جماعت سے نقل کیاہے۔ ابن المنذر نے بھی اسی کو اختیارکیا ہے ۔ ابن عباسؓ کی بھی یہی رائے معلوم ہوتی ہے ، اس لیے کہ انہوں نے کہا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لیے کیا تھاتا کہ اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈالیں ۔ انہوں نے اس کی وجہ مرض یا کوئی اور عذر نہیں قراردیاتھا۔ واللہ اعلم ‘‘
(شرح صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جواز الجمع بین الصلاتین فی الحضر)