خواتین کا اجتماعی سفر

ہم لوگ ریاستی سطح پر خواتین کی ایک کانفرنس کررہے ہیں ۔ اس میں مختلف شہروں سے طالبات او ر خواتین شریک ہوں گی۔ عموماً یہ سب گروپ کی شکل میں سفر کرتی ہیں ۔ ہر ایک کے ساتھ اس کا محرم نہیں ہوتا ۔ بعض حضرات اس پر اشکال پیش کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر لڑکی یا عورت کے ساتھ دورانِ سفر کوئی محرم ہونا ضروری ہے ۔ بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں ، کیا اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے ؟ یا ان میں سے بعض مختلف رائے رکھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ائمہ اربعہ کے مسلک پر روشنی ڈالیں ۔
جواب

احادیث میں صراحت ہے کہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:
لَا تُسَافِرُ الْمَرْاَۃُ اِلاَّ معَ ذِیْ مَحْرَمٍ (بخاری۱۸۶۲، مسلم۱۳۱۴)
’’عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے‘‘۔
دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لاَ یَحِلُّ لاِ مْرَاَ ۃٍ تُوْمِنُ باللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ اَنْ تُسَافِرَ مَسِیْرَۃَ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ لَیْسَ مَعَہَا حُرْمَۃٌ (بخاری۱۰۸۸، مسلم۱۳۳۹)
’’ کسی عورت کے لیے ،جواللہ اورروزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں ہے کہ محرم کے بغیر ایک دن اورایک رات کی مسافت کے بقدر سفر کرے‘‘۔
اس مضمون کی احادیث مختلف الفاظ میں مروی ہیں ۔ کسی حدیث میں دو دن دورات اورکسی میں تین دن تین رات کا تذکرہ ہے ۔ محدثین نے ان کے درمیان اس طرح تطبیق دینےکی کوشش کی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بغیر محرم کے عورت کے سفر کو ممنوع قرار دیا ہے، چاہے جتنی مسافت کا سفر ہو ۔ کسی نے تین دن کی مسافت کے بارے میں دریافت کیا ، کسی نے دو دن کی مسافت کے بارے میں اور کسی نے ایک دن کی مسافت کے بارے میں ۔ آپ ؐ کا جواب ہر موقع پر یہی تھا کہ بغیر محرم کے عورت کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔
عورت کے (بغیر محرم کے ) سفر کی کئی صورتیں ہیں :
n وہ دار الکفر میں ہو، وہاں سے دارالاسلام میں سفر کرنا چاہتی ہو ، یا کسی پُر خطر مقام پر ہو، وہاں سے کسی پُر امن علاقے میں آنا چاہتی ہو ،تو اسےمحرم فراہم ہونے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ اضطراری حالت ہے ۔ وہ اس حالت میں بغیر محرم کے بھی سفر کر سکتی ہے۔
n اس پر حج فرض ہوگیا ہو ، لیکن کوئی محرم نہ ہو جواسے اپنے ساتھ لے جاسکے، یا محرم تو ہو، لیکن کسی وجہ سے اس کا ساتھ جانا ممکن نہ ہو۔ اس صورت میں کیا حکم ہے ؟ اس میں فقہا کا اختلاف ہے ۔ جمہور بغیر محرم کے عورت کو سفر حج کی بھی اجازت نہیں دیتے، جب کہ بعض فقہا قابل اعتماد عورتوں کی جماعت کے ساتھ حج کے لیے نکلنے کو جائز کہتے ہیں ۔
n عورت نہ اضطراری حالت میں ہو اور نہ اسے سفرِ حج در پیش ہو، بلکہ وہ کسی اور ضرورت سے ، (مثلاً تجارت، تعلیم یا کسی رشتے دارسے ملاقات یا کسی دینی پروگرام میں شرکت وغیرہ کے لیے) سفر کرنا چاہتی ہو۔ اس صور ت میں بھی جمہور فقہا بغیرمحرم کے اس کے سفر کوناجائز قرار دیتے ہیں ۔ بعض حضرات اس پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن یہ دعویٰ درست نہیں ، اس لیے کہ بعض فقہا نے اس سے مختلف نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔
کچھ فقہا عام حالات میں بغیر محرم کے عورت کے سفر کو بعض شرائط کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں ۔ مثلاً راستہ پر امن ہو، فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور کوئی ضرر لا حق ہونے کا خطرہ نہ ہو یاکچھ دوسری قابل اعتماد عورتوں کا سا تھ ہو ۔ یہ رائے حضرت حسن بصریؒ، امام اوزاعیؒ اورداؤد ظاہری ؒ سے مروی ہے ۔ شوافع (المجموع۸؍ ۳۴۲) اور حنابلہ سے ایک قول ایسا مروی ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ کا ایک قول تو جمہور کے مطابق ہے ( شرح العمدۃ۲؍۱۷۲۔۱۷۷، الفتاویٰ الکبریٰ۵؍۳۸۱) لیکن ان کا دوسرا قول ابن المفلح نے یہ نقل کیا ہے ’’راستے پر امن ہونے کی صورت میں امام ابن تیمیہؒ کے نز دیک عورت محرم کے بغیر حج کو جاسکتی ہے ۔ اسی طرح دیگر ضروریات سے بھی سفر کرسکتی ہے ۔ کرابیسی نے یہ قول نفلی حج کے سلسلے میں امام شافعی ؒ سے بھی نقل کیا ہے ۔ ان کے بعضـ اصحاب کی رائے ہے کہ اس کا اطلاق ہر طرح کے سفر پر ہوتا ہے‘‘۔ (الفروع۳؍۱۷۷)امام نوویؒ نے لکھا ہے ’’ماوردی ؒ فرماتے ہیں  ہمارے اصحاب میں سے بعض نے یہ رائے دی ہے کہ عورت بغیر محرم کے معتبر عورتوں کی جماعت کے ساتھ نکل سکتی ہے ، جیسا کہ فرض حج میں اس کی اجازت ہے ‘‘۔ (المجموع۸؍۳۴۳)
فقہا کے درمیان اس اختلاف کی بنیاد یہ سوال ہے کہ محرم کے بغیر عورت کا سفرممنوع ہونے کی علّت کیا ہے؟
جمہور فقہا اس کی علّت خود سفر کوقرار دیتے ہیں ۔ اس صور ت میں چاہے راستے پُرامن ہوں اور عورت کے تحفظ کی دیگر تدابیر فراہم ہوں تب بھی اس کا بغیر محرم کے سفر جائز نہ ہوگا۔
جوفقہا یہ مانتے ہیں کہ علّتِ تحریم عورت کی جان اور عزت وآبرو کا تحفظ ہے وہ کہتے ہیں کہ راستہ پُرامن ہو، یا دیگر عورتوں کا ساتھ ہوتو عورت بغیر محرم کے بھی سفر کرسکتی ہے ۔ اس کی دلیل وہ حضرت عدی بن حاتمؓ سے مروی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَاِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ لَتَرَیَنَّ الظَّعِیْنَۃَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِیْرَۃِ حَتّٰی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَۃِ لاَ تَخَافُ اَحَداً اِلاَّ اللہَ (بخاری ۳۵۹۵)
’’ اگرتم زندہ رہے تو یقیناً دیکھ لوگے کہ ایک عورت حیرہ سے تنہا سفر کرکے آئے گی اورکعبہ کا طواف کرے گی ۔ راستے میں اسے اللہ کے علاوہ اورکسی کا خوف نہ ہوگا‘‘۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اس حدیث کےذیل میں لکھا ہے :
’’ اس حدیث میں نہ صرف اس بات کی پیشین گوئی ہے کہ ایساو اقعہ وقوع پذیر ہوگا، بلکہ سفر پُر امن ہونے کی صورت میں اکیلی عورت کے سفر پر نکلنے کے جواز کی بھی دلیل ہے ۔ کیوں کہ حضورؐ نے اس واقعے کی پیشین گوئی تعریف اورمدح کے صیغے میں فرمائی ہے۔‘‘
( فتاویٰ یوسف القرضاوی ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ، ۱۲۰۱۱، جلد اوّل ، ص ۱۸۱)
اس تفصیل سے واضح ہو اکہ جمہور فقہا کسی بھی صورت میں محرم کے بغیر عورت کے سفر کرنے کو نا جائز قرار دیتے ہیں ، البتہ بعض فقہا کہتے ہیں کہ راستے پُر امن ہوں اور دیگر عورتوں کا ساتھ ہو، توعورت محرم کے بغیر بھی سفر کرسکتی ہے، یا کچھ عورتوں کے ساتھ ان کےمحرم ہوں تو دیگر عورتیں ان کے ساتھ سفر کرسکتی ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ جمہور کے موقف میں احتیاط اوربعض فقہا کے موقف میں کچھ گنجائش پائی جاتی ہے۔