خواتین کے قضا روزوں کے مسائل

شوال کے (۶)روزوں کی حدیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ خواتین اپنے قضا روزے بعد پر ٹال کر پہلے شوال کے روزے رکھ لیں؟ یا پہلے قضا روزے ہی رکھنے ہوں گے، اس کے بعد ہی سرپوشی روزے رکھے جاسکتے ہیں۔؟

جواب

احادیث میں جن نفل روزوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے ان میں سے ماہ رمضان کے بعد شوّال کے (۶) روزے بھی ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے

مَنۡ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتۡبَعَہُ سِتًّا مِنۡ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھۡرِ۔                                          (مسلم۱۱۶۴)

’’جس شخص (مرد یا عورت) نے پورے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، پھر شوال کے (۶)روزے بھی رکھے، اس نے گویا پورے زمانے کے روزے رکھے۔‘‘

روزہ کی دو قسمیں ہیں فرض اور نفل۔ جو اہمیت فرض روزے کی ہے وہ نفل روزہ کی نہیں ہوسکتی۔قرآن مجید میں روزہ ٔرمضان کی فرضیت کا تذکرہ کرنے کے ساتھ رخصت دی گئی ہے کہ اگر کسی کو ان دنوں میں کوئی سفر درپیش ہو یا وہ بیمار ہو تو بعد کے دنوں میں ان کی قضا کرلے۔(البقرۃ۱۸۴،۱۸۵) عورتوں کے لیے حیض، حمل، وضعِ حمل، نفاس اور مدّتِ رضاعت  وغیرہ کو مرض کی حیثیت دی گئی ہے۔ماہِ رمضان میں وہ ان احوال سے گزریں تو انہیں رخصت ہے کہ روزہ نہ رکھ کر بعد میں قضا کریں۔

کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے تو بہتر ہے کہ جلد از جلد اسے ادا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ مناسب نہ ہوگا کہ وہ قرض اپنے اوپر لادے رہے، اسے ادا کرنے کی کوشش نہ کرے، اور صدقہ و خیرات تقسیم کرتا رہے اور کہے کہ قرض میں کبھی بعد میں ادا کردوں گا۔ ٹھیک یہی حال روزہ کا ہے۔ کسی عورت کے فرض روزے چھوٹ جائیں تو اسے ان کی جلد از جلد قضا کرنے کی فکر کرنی چاہیے، نفل روزوں کی ادائیگی کی اس کے بعد فکر کرنی چاہیے۔ یہ دانش مندی نہ ہوگی کہ وہ نفل روزے رکھنے کی کوشش کرے، جب کہ فرض روزے اس کے اوپر لدے ہوئے ہوں۔