جواب
مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہونے والی کتابوں پر ان کے مصنفین کا جو تعارف شائع ہوتا ہے وہ خود ان کا تیارکیا ہوا نہیں ہوتا، بلکہ اسے مکتبہ کا شعبۂ ادارت تیار کرتا ہے اور مصنفین کو دکھائے بغیر ان کی کتابوں پر شائع کردیتا ہے۔ یہ موجودہ اشاعتی دنیا کا ٹرینڈ ہے۔ اس میں سیکولر، دینی اور تحریکی تمام حلقے شامل ہیں ۔ پاکستان میں بھی تحریک ِ اسلامی سے وابستہ اشاعتی اداروں سے جو کتابیں شائع ہو رہی ہیں ان پر ان کے مصنفین کا تعارف شائع ہوتا ہے۔ بہ ہر حال اس معاملے میں تعارف اور تعریف کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ البتہ اگرکوئی شخص اپنی تعریف و توصیف خود اپنی زبان یا قلم سے کرے اور اپنے منہ میاں مٹھو بنے اور اس سے اس کا مقصد دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ہو، یا وہ خواہش رکھے کہ دوسرے اس کے سامنے یا اس کے پیٹھ پیچھے اس کی خوب تعریف اور قصیدہ خوانی کریں تو یہ شریعت اسلامی میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ احادیث میں اس پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔
ایک صحیح حدیث مروی ہے۔ مدینے سے باہر رہنے والے ایک تابعی - شفی اصجی- بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اور مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے گیا تو دیکھا کہ لوگ بڑی تعداد میں ایک بزرگ کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ وہ صحابی ِ رسولؐ حضرت ابوہریرہؓ ہیں ۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا۔ جب تمام لوگ چلے گئے اور وہ تنہا رہ گئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے کوئی ایک حدیث سنا دیجیے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو اور وہ آپ کو اچھی طرح یاد ہو۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے، سناتا ہوں ، لیکن قبل اس کے کہ وہ حدیث بیان کرتے، اچانک بے ہوش ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد انھیں ہوش آیا تو بولے: میں اس وقت ایک ایسی حدیث سناؤں گا جو رسول اللہ ﷺ نے اس وقت بیان کی تھی جب آپؐ کی خدمت میں میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ حدیث سنانا شروع کرتے پھر غش کھا کر گر پڑے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش میں آئے تو بولے: اس حدیث کو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی مسجد میں سنا ہے۔ اتناہی بول پائے تھے کہ پھر ان پر غشی طاری ہوگئی۔ راوی کہتے ہیں کہ اسی طرح وہ چار مرتبہ بے ہوش ہوئے۔ چوتھی مرتبہ ان کی بے ہوشی شدید تھی۔ وہ اوندھے منہ گر گئے تھے۔ میں نے انھیں اٹھایا اور دیر تک سہارا دیے رہا۔ جب انھیں ہوش آیا اور ان کے حواس بحال ہوئے تب انھوں نے حدیث بیان کی۔ یہ وہی مشہور حدیث ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تین طرح کے لوگوں کو حاضر کیا جائے گا: عالم، مال دار اور شہید۔ اللہ تعالیٰ عالم سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے علم دین سے نہیں نوازا تھا؟ وہ جواب دے گا: ہاں کیوں نہیں ، اے میرے رب۔ اللہ کہے گا: پھر تونے کیا کیا؟ وہ جواب دے گا: میں نے دن رات اس کی اشاعت کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیری خواہش تھی کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور لوگوں نے کہا۔ حدیث میں تفصیل ہے کہ اسی طرح مال دار اور شہید سے بھی پوچھا جائے گا۔ آخر میں حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اے ابو ہریرہؓ قیامت کے دن جہنم میں سب سے پہلے انہی تین طرح کے لوگوں کو ڈالا جائے گا۔ اسی روایت میں آگے ایک دوسرے راوی بیان کرتے ہیں کہ یہی صاحب حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کی خدمت میں پہنچے اور ان کے سامنے پوری تفصیل بیان کی کہ کس طرح وہ مدینہ گئے اور مسجد نبویؐ میں حضرت ابو ہریرہؓ سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے حدیث سنانے کی خواہش کی اور کس طرح حضرت ابو ہریرہؓ حدیث سنانے سے پہلے چار مرتبہ بے ہوش ہوئے اور وہ کیا حدیث تھی؟ حدیث سن کر حضرت معاویہؓ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ انھوں نے فرمایا: جب ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ قیامت میں یہ معاملہ ہوگا تو دیگر لوگوں کا کیا حال ہوگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت معاویہؓ اتنا روئے، اتنا روئے کہ ہم گمان کرنے لگے کہ اسی حالت میں ان کی جان نکل جائے گی۔ ہم اس آدمی کو ملامت کرنے لگے جس نے وہ حدیث سنائی تھی اور جسے سن کر ان کی یہ حالت ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انھوں نے چہرہ صاف کیا اور فرمایا: ’اللہ اور اس کے رسولؐ نے سچ کہا ہے۔‘ پھر انھوں نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لاَ یُبْخَسُوْنَo اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ لَیْْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلّاَ النَّارُصلے ز وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (ہود: ۱۵، ۱۶)
’’جو لوگ بس اس دنیاکی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہوجائے گا کہ) جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔‘‘ (۱)
رہی یہ بات کہ کیا تعریف و تحسین کی قرآن و سنت میں کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ اس موضوع پر دینی لٹریچر میں بہت مواد موجود ہے، لیکن اس وقت تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صرف مشہور محدث، صحیح مسلم کے شارح اور منتخب احادیث کی مشہور کتاب ریاض الصالحین کے مرتب امام نوویؒ (م۶۷۶ھ) کی کتاب الاذکار کا ایک اقتباس نقل کردوں کہ وہ اس موضوع پر کافی و شافی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’کسی انسان کے اچھے اوصاف پر اس کی مدح و ثنا اس کے منہ پر بھی کی جاتی ہے اور اس کے غائبانہ میں بھی۔ جہاں تک غائبانہ میں مدح و ثنا کا معاملہ ہے تو اس کی ممانعت نہیں ہے، الا ّ یہ کہ مدح کرنے والا اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگے اور غلط باتیں اپنے منہ سے نکالنے لگے۔ اس وقت ایسا کرنا حرام ہوگا۔ مدح کی وجہ سے نہیں ، بلکہ جھوٹ کی وجہ سے۔ یہ مدح، جس میں کوئی جھوٹ نہ ہو، اس وقت مستحب ہے، جب اس میں کوئی مصلحت ہو یا اس سے کوئی فساد لازم نہ آئے کہ تعریف کرنے والے کی باتیں اس شخص تک پہنچ جائیں جس کی وہ تعریف کر رہا ہے اور وہ فتنے میں پڑجائے۔ جہاں تک کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف کرنے کا سوال ہے تو اس سلسلے میں ایسی احادیث بھی مروی ہیں جن سے اس کی اباحت یا استحباب کا حکم معلوم ہوتا ہے اور ایسی احادیث بھی ہیں جن سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ۔ علماء کہتے ہیں : ان بہ ظاہر متضاد احادیث کے درمیان جمع و تطبیق یوں دی جاسکتی ہے کہ کہا جائے: اگر ممدوح کمال ِ ایمان، حسن ِ یقین، ریاضت ِ نفس اور معرفت ِ تام سے اس حد تک بہرہ ور ہو کہ اپنی تعریف کی باتیں سن کر وہ کسی فتنے میں مبتلا نہ ہو، اپنے بارے میں دھوکے کا شکار نہ ہو اور اس کا نفس اسے کھلونا نہ بنا لے تو اس کے منہ پر اس کی تعریف کرنا حرام ہے نہ مکروہ ، لیکن اگر اس کے سلسلے میں ان میں سے کسی بات کا خوف ہو تو اس کی مدح کرنا شدید مکروہ ہے۔
کسی کے منہ پر اس کی تعریف کی ممانعت کے سلسلے میں جو احادیث مروی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :
۱- روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ کے سامنے ایک شخص ان کی تعریف کرنے لگا۔ وہاں حضرت مقدادؓ بھی موجود تھے۔ انھوں نے جھک کر زمین سے ایک مٹھی ریت اٹھائی اور اس کے منہ پر دے ماری۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا: ارے، یہ کیا کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے:
اِذَا رَاَیْتُمُ الْمَدَّاحِیْنَ فَاحْثُوا فِیْ وُجُوْھِھِمِ التُّرَابَ ۔(۱)
’’جب تم دیکھو کہ لوگ مبالغہ آمیز تعریف کر رہے ہیں تو ان کے منہ پر مٹی ڈال دو۔‘‘
۲- حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی مجلس میں ایک شخص دوسرے شخص کی خوب مبالغہ آمیز مدح و ستائش کرنے لگا۔ آپؐ نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا:
اَھْلَکْتُمْ اَوْ قَطَعْتُمْ ظَھْرَ الرَّجُلِ ۔(۲)
’’تم لوگوں نے اس شخص کو ہلاک کردیا (یا فرمایا) تم لوگوں نے اس شخص کی کمر توڑ دی۔‘‘
۳- حضرت ابوبکرۃؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی مجلس میں ایک شخص کا تذکرہ آیا تو ایک شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا:
وَیْحَکَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبَکَ ’’تمھارا برا ہو، تم نے اپنے ساتھی کا سر قلم کردیا۔‘‘
یہ جملہ آپؐ نے کئی بار دہرایا۔ پھر فرمایا:
مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَادِحًا اَخَاہُ فَلْیَقُلْ اَحْسِبُ فُلاَنًا وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ وَلاَ اُزَکِّی عَلَی اللّٰہِ اَحَدًا، اَحْسِبُہٗ کَذَا وَ کَذَا اِنْ کَانَ یَعْلَمُ ذٰلِکَ مِنْہُ ۔(۳)
’’تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کے اندر کوئی خوبی پاتا ہو اور وہ اس کی تعریف کرنا چاہے تو یوں کہے: میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں ، حقیقت حال سے تو اللہ باخبر ہے۔ میں اللہ کے سامنے کسی کو بے عیب نہیں کہہ سکتا۔ اگر اسے واقعی معلوم ہو تو کہے کہ میرا خیال ہے کہ اس کے اندر فلاں فلاں خوبیاں ہیں ۔‘‘
جن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی تعریف اس کے منہ پر کرنا جائز ہے وہ بے شمار ہیں ۔ ان میں سے چند کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں :
۱- غار ِ ثور میں اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔ (۱)
۲- ایک موقع پر جب اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کو وعید سنائی جو گھمنڈ کی وجہ سے اپنا ازار ٹخنوں سے نیچا رکھتے ہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میرا ازار بھی نیچے کھسک جاتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو۔ (۲)
۳- ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے سامنے فرمایا: ’’اپنی رفاقت اور مال کے ذریعے میرے اوپر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں ۔‘‘ (۳)
۴- ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں جنت میں داخلے کے لیے اس کے تمام دروازوں سے پکارا جائے گا۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ’’مجھے امید ہے کہ ان میں سے تم بھی ہوگے۔‘‘ (۴)
۵- ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ آں حضرت ﷺ سے شرف ِ ملاقات حاصل کرنے کے لیے گئے اور اجازت طلب کی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’انھیں آنے دو اور انھیں جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ (۵)
۶- ایک مرتبہ احد پہاڑ پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ موجود تھے۔ زلزلے کے ہلکے جھٹکوں کا احساس ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ’’احد ٹھہر جا، اس وقت تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔‘‘ (۶)
۷- ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میں نے جنت کی سیر کی تو اس میں ایک محل دیکھا۔ میں نے دریافت کیا: یہ کس کا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ عمر کا ہے۔ میں نے اسے اندر سے دیکھنے کا ارادہ کیا، لیکن مجھے تمھاری غیرت کا خیال آگیا، اس لیے نہیں گیا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ! کیا میں آپ کے مقابلے میں غیرت کا مظاہرہ کروں گا۔‘‘ (۱)
۸- ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’اے عمر! تم جس راستے پر چلتے ہو، اگر ادھر سے شیطان گزرے تو وہ اپنا راستہ بدل دیتا ہے۔‘‘ (۲)
۹- ایک بار حضرت عثمانؓ نے خدمت نبویؐ میں بازیابی چاہی تو آپؐ نے فرمایا: ’’عثمان کے لیے دروازہ کھولو اور انھیں جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ (۳)
۱۰- ایک موقع پر آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔‘‘ (۴)
۱۱- ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ مجھ سے تمھارا ویسا ہی تعلق ہے جیسا کہ ہارونؑ کا موسیٰؑ سے تھا۔‘‘ (۵)
۱۲- ایک موقع پر آپؐ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا: ’’میں نے جنت میں تمھارے جوتوں کی آواز اپنے آگے آگے سنی ہے۔‘‘ (۶)
۱۳- ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے فرمایا: ’’اے ابو منذر، تمھیں علم مبارک ہو۔‘‘ (۷)
۱۴- ایک بار آپؐ نے حضرت عبد اللہ بن سلامؓ سے فرمایا: ’’تم زندگی کی آخری سانس تک اسلام پر قائم رہوگے۔‘‘ (۸)
۱۵- ایک مرتبہ حضرت ابو طلحہؓ اور ان کی زوجہ محترمہ نے اپنے گھر ایک مہمان کو رکھا۔ اسے کھانا کھلایا اور خود بھوکے سو رہے۔ اگلے دن وہ خدمت ِ نبویؐ میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کو تم دونوں کا عمل بہت پسند آیا۔‘‘ (۹)
۱۶- ایک موقع پر آپؐ نے انصار کی کچھ عورتوں اور بچوں کو دیکھا تو فرمایا: ’’تم لوگ میرے نزدیک بہت محبوب ہو۔‘‘ (۱)
۱۷- قبیلۂ عبد القیس کا ایک وفد آپؐ سے ملنے آیا تو اس میں شامل ایک نوجوان سے، جس کا نام اشج تھا، آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ کو بہت محبوب ہیں : بردباری اور سنجیدگی۔‘‘ (۲)
یہ تمام احادیث صحیح اور مشہور ہیں ۔ اس طرح کی دیگر حدیثیں ، جن میں آں حضرت ﷺ نے کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف کی ہے، بہت ہیں ۔ جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین اور بعد کے علماء و ائمہ نے دوسروں کے منہ پر ان کی تعریف کی ہیں ، وہ تو اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ۔
امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین کی کتاب الزکوٰۃکے آخر میں لکھا ہے: ’’اگر کوئی شخص کسی کو صدقہ دے تو صدقہ لینے والے کو دیکھنا چاہیے۔ اگر صدقہ دینے والا ان لوگوں میں سے ہو جو پسند کرتے ہیں کہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے اور دوسروں میں ان کا چرچا ہو تو صدقہ لینے والے کو چاہیے کہ اس صدقے کا کسی سے ذکر نہ کرے۔ اس لیے کہ اس پر اس کا حق ہے کہ ظلم کے معاملے میں اس کی مدد نہ کرے اور شکر گزاری چاہنا ظلم ہے۔ لیکن اگر اس کے حال سے ظاہر ہو کہ وہ شکر و سپاس پسند نہیں کرتا اور اس کا خواہاں نہیں ہے تو صدقہ قبول کرنے والے کو چاہیے کہ اس کا شکریہ ادا کرے اور دوسروں میں بھی اس کا چرچا کرے۔ امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں : ’جس شخص کو اپنی ذات کی معرفت حاصل ہوگی، اگر دوسرے لوگ اس کی تعریف و توصیف کریں گے تو اسے کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔‘‘
کیا کوئی شخص اپنے منہ سے اپنی تعریف و مدح کرسکتا ہے اور اپنے محاسن گنا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلاَ تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْط (النجم: ۳۲)
’’پس تم اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو۔‘‘
اپنے محاسن بیان کرنے کی دو صورتیں ہیں : ایک مذموم، دوسری پسندیدہ۔ مذموم صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے محاسن فخر، گھمنڈ اور دوسروں پر برتری ظاہر کرنے کے لیے بیان کرے۔ اور پسندیدہ صورت یہ ہے کہ ان محاسن کے بیان کرنے میں کوئی دینی مصلحت ہو۔ مثلاً یہ کہ وہ کسی معروف کا حکم دے رہا ہو، کسی منکر سے روک رہا ہو، کوئی نصیحت کر رہا ہو، کسی اچھے کام کا مشورہ دے رہا ہو، تعلیم، تربیت، وعظ یا تذکیر کر رہا ہو، لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرا رہا ہو، اپنی ذات سے کسی شر کو دفع کر رہا ہو وغیرہ۔ اس وقت وہ اپنے محاسن بیان کرسکتا ہے اگر اس کی نیت یہ ہو کہ ایسا کرنے سے اس کے مخاطبین اس کی بات کو آسانی سے قبول کرلیں گے یا وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر اعتماد کریں گے، یا وہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے میرے سوا کوئی دوسرا نہیں بیان کرسکتا، اس لیے اس بات کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ اس مضمون کی بے شمار نصوص مروی ہیں ۔ چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں :
۱- غزوۂ حنین کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’میں پیغمبر ہوں ، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ (۱)
۲- ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں ۔‘‘ (۲)
۳- ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’قیامت برپا ہوگی تو سب سے پہلے زمین سے مجھے نکالا جائے گا۔‘‘ (۳)
۴- ایک موقع پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اللہ کی قسم، میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں ۔‘‘ (۴)
۵- ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’میری راتیں تو اس طرح گزرتی ہیں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔‘‘ (۵)
۶- قرآن کریم میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر سے فرمایا تھا:
اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo (یوسف: ۵۵)
’’ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ۔‘‘
۷- قرآن میں ہے کہ حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کے خسر نے ان سے اپنے بارے میں فرمایا تھا:
سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo (القصص: ۲۷)
’’تم ان شاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤگے۔‘‘
۸- بلوائیوں نے جب حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو انھوں نے ان کے سامنے آکر فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب غزوۂ تبوک کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’جو شخص جیش العسرۃ کو سامان ِ جنگ فراہم کرے گا اس کے لیے جنت ہے‘‘، تب میں نے لشکر اسلام کے لیے سامان ِ جنگ فراہم کیے تھے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’جو شخص رومہ نامی کنویں کو خرید کر عام لوگوں کے لیے وقف کردے گا اس کے لیے جنت ہے، ‘‘ تب میں نے اسے خرید کر وقف کردیا تھا؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: ’’ہاں ‘‘۔ (۱)
۹- اہل ِ کوفہ نے جب حضرت عمرؓ کی خدمت میں پہنچ کر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی شکایت کی کہ وہ ٹھیک سے نماز نہیں پڑھاتے ہیں تو عمرؓ نے تحقیق ِ حال کے لیے انھیں طلب کیا۔ حضرت سعدؓ نے اس موقع پر فرمایا: ’’مسلمانوں میں وہ پہلا شخص میں ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تھا۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں بھی شرکت کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔‘‘ (۲)
۱۰- حضرت علیؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’اللہ کی قسم! نبی ﷺ نے ایک بار مجھ سے فرمایا تھا کہ مجھ سے وہی شخص محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور وہی شخص نفرت کرے گا جو منافق ہوگا۔‘‘ (۳)
۱۱- حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر ستّر(۷۰) سے زائد سورتیں یاد کی ہیں ۔ اصحاب ِ رسول جانتے ہیں کہ میں کتاب اللہ کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہوں ، حالاں کہ میں ان میں بہتر نہیں ہوں ۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کسی شخص کے پاس مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم ہے تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا۔‘‘ (۴)
۱۲- حضرت ابن عباسؓ سے کسی نے ایک مسئلہ پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ’’تم ایک واقف شخص کے پاس آئے ہو۔‘‘ (ان کی مراد اپنی ذات تھی) (۵)
اس طرح کی احادیث و روایات بے شمار ہیں ۔ انھیں اسی پر محمول کیا جائے گا جس کا تذکرہ اوپر آچکا ہے۔(۶)