دودھ پلانے کی وجہ سے اسقاطِ حمل

,

کسی خاتون کو اگر پہلے بچے کی ولادت کے آٹھ ماہ بعد ہی حمل رہ جائے تو کیا وہ پہلے بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے اسقاط کرواسکتی ہے؟کیا شریعت کی روٗ سے استقرارِ حمل کے بعد دوماہ کے اندر اسقاط کروایا جاسکتاہے؟

جواب

عام حالات میں حمل ٹھہرجانے کے بعد بغیر کسی عذر کے اس کا اسقاط کروانا جائز نہیں ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ تخلیق میں دخل اندازی ہے، جو بہت بڑاجرم ہے۔ اس نے نسل ِ انسانی کے تسلسل کے لیے ایک نظام بنایا ہے۔ اس دنیا میں جو بچہ بھی پیداہوتاہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنا رزق لے کر آتاہے اور اس کے لیے یہ بھی طے کردیاجاتاہے کہ وہ دنیا میں کب تک زندہ رہے گا؟اسبابِ دنیا سے کیسے فائدہ اٹھائے گا؟اور کب یہاں سے رخصت ہوجائے گا؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا۝۰ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ                       (ہود۶)

’’زمین میں چلنے والا کوئی جان دار ایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتاہوکہ وہ کہاں رہتاہے اور کہا ںسونپاجاتاہے؟سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔‘‘

البتہ اگر کوئی معقول اور حقیقی عذر ہو، مثال کے طورپر حمل جاری رہنے کی صورت میں عورت کی جان کو خطرہ ہو، یا اسے کسی مہلک مرض میں مبتلا ہوجانے یا کوئی شدید ضرر پہنچ جانے کا اندیشہ ہو،یاحمل کی وجہ سے دودھ بند یا خراب ہوجانے کا قوی امکان ہو، جس سے دودھ پینے والے پہلے بچے کی صحت خراب ہوجائے اور بچے کے باپ کی اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی کوئی عورت مقرر کرسکے، یا اوپر کے دودھ کا انتظام کرسکے توعورت کے لیے اسقاطِ حمل کراناجائز ہوگا۔

عذر کی صورت میں اسقاط کی اجازت اس مدّت کے اندر ہے جس میں جنین کی تخلیق کا عمل مکمّل نہ ہوگیاہو۔ تخلیق سے مراد جنین میں روح پھونکاجانا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مدّت ایک سو بیس (۱۲۰)دن ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے

إنَّ اَحَدَکُم یُجۡمَعُ فِی بَطنِ امِّہ اربَعِینَ یَوماً، ثُمّ عَلَقَۃً مِثلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ یَکُونُ مَضغَۃً مِثلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ یَبعَثُ اللّٰہُ اِلَیہِ مَلَکاً، فَیُومَرُ بِاربَعٍ بِرِزقِہ وَاجَلِہ وَشَقِیٌّ او سَعِیدٌ۔

(بخاری۳۳۳۲، مسلم۲۶۳۴)

’’تم میں ہرشخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفہ کی حالت میں رہتاہے۔پھر علقہ کی حالت میں اور اتنی ہی مدت مضغہ کی حالت میں۔ پھر اللہ ایک فرشتے کو بھیجتاہے اور اس کے ذریعہ چارچیزوں کا فیصلہ کیاجاتاہےرزق،عمر اور نیک بخت ہوگا یا بدبخت۔‘‘

اس سے فقہائے کرام نے یہ استنباط کیاہے کہ عذر کی صورت میں چارماہ(ایک سوبیس دن) کے اندر اسقاط کروایا جا سکتا ہے۔ یہ مدت گزرجانے کے بعد اسقاط کی اجازت نہیں۔ ایساکرنے پر سخت گناہ ہوگا۔   (فتاویٰ عالم گیری، کتاب الکراھیۃ،باب۱۸ فی التداوی والمعالجات،۵؍۳۵۶)

بسااوقات حاملہ عورت کا الٹراسائونڈ کرانے پر جنین میں کسی بڑے نقص کا پتہ چلتا ہے، مثلاً وہ ناقص الخلقت ہوتاہے، یا اس کے کسی عضو کی نشوونما صحیح طریقے پر نہیں ہوتی اور ڈاکٹروں کا قطعی فیصلہ ہوتاہے کہ پیداہونے کے بعد وہ شدید معذوری کے ساتھ زندگی گزارسکے گا توایسی صورت میں بعض فقہاء چارماہ کے بعد بھی اسقاط کی اجازت دیتے ہیں۔