ہمارے ایک دوست کے داماد کا ایک ہفتہ پہلے انتقال ہوگیا۔ ان کے دوبیٹے پڑھ رہے ہیں ایک کالج میں، دوسرا ہائی سکول میں۔ مرحوم کی بیوہ ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ اب گھر کے اخراجات انہی کو سنبھالنا ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ نے چالیس دن کی چھٹی بغیر تنخواہ کے دی ہے۔ عدّت کے باقی دنوں کے لیے مزید چھٹی دینے پر وہ تیار نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ اگر خاتون اسکول نہیں جائیں گی تو انھیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔ وہ کیا کریں؟ عدّت کے باقی دن گھر رہ کر گزاریں اور ملازمت چھوڑ دیں، یا اسکول جوائن کرلیں؟
جواب
کوئی خاتون بیوہ ہوجائے تو اس کی عدّت چار ماہ دس دن بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۰ۚ (البقرۃ۲۳۴)
’’ تم میں سے جو لوگ مر جائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں۔‘‘
عدّت کے دوران میں عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہیں ہوسکتا۔ حکم یہ ہے کہ اس مدّت میں عورت زیب و زینت اختیار نہ کرے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے۔ ہاں، کوئی ضرورت درپیش ہو تو وہ گھر سے باہر جاسکتی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ الانصاریؓ کی خالہ کو طلاق ہوگئی۔ انھوں نے دورانِ عدّت اپنے کھجور کے باغ میں جاکر کام کرنا چاہا تو خاندان کے ایک شخص نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا۔وہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور مسئلہ دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا’’تم عدّت میں اپنے کھجور کے باغ میں جاکر کام کرسکتی ہو۔‘‘ (مسلم۱۴۸۳)
اس لیے وہ خاتون شوہر کا انتقال ہونے پر پہلے پوری مدّتِ عدّت کے لیے اسکول سے رخصت حاصل کرنے کی کوشش کریں، چاہے بلا تنخواہ کے۔ اگر پوری رخصت مل جائے تو بہتر ہے، پوری رخصت نہ ملے تو جتنی مل جائے اس سے فائدہ اٹھائیں، اس کے بعد وہ اسکول جاسکتی ہیں۔ اسی طرح اگر بلاتنخواہ رخصت تو مل سکتی ہو، لیکن ان کے گزراوقات میں دشواری ہوتو بھی وہ اسکول جائیں اور تنخواہ حاصل کرکے اپنا گزارا کریں۔البتہ ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ عدّت گزارنے والی عورت کے لیے اصل حکم گھر پر رہنے کا ہے، وقتِ ضرورت گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لیے اسکول سے رخصت نہ ملنے کی صورت میں وہ صرف اسکول جائیں اور تدریس کے بعد گھر واپس آجائیں، کہیںاور شاپنگ یا ملاقات کے لیے جانے کی اجازت نہیں ہے۔