جواب
:قرآن مجید میں عدّت کی مدّت تین ماہ واری بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۗءٍ۰ۭ ( البقرۃ۲۲۸)
’’جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ ایام ماہ واری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ۔‘‘
عدّت، چاہے طلاق کی ہو یا خلع کی، جمہور فقہا کے نزدیک تین ماہ واری یا تین ماہ ہے۔
عدّت کا ایک مقصد’ استبراءِ رحم‘ ہے،یعنی قطعی طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ اس شوہر سے عورت کو حمل ہے یا نہیں ؟ اس وجہ سے عدّت کے دوران میں عورت کا دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس کا دوسرا مقصد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ نکاح کا ٹوٹ جانا ایک اہم سماجی معاملہ ہے۔ اس لیے عورت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس دوران میں زیب و زینت سے احتراز کرے اور گھر میں ٹِک کر رہے۔
ناگزیر صورت میں بعض ضروریات کی تکمیل کے لیے عورت گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ سخت بیمار ہوجائے تو ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے جا سکتی ہے، یا اسے اسپتال میں داخل کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح کوئی تنازعہ ہو جائے تو پولیس اسٹیشن یا عدالتی چارہ جوئی کے لیے کورٹ جاسکتی ہے۔کہیں ملازمت کر رہی ہو اور ڈیوٹی پر نہ جانے کی صورت میں ملازمت چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو اسے جاری رکھ سکتی ہے۔ بعض احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ کی خالہ کو طلاق ہوگئی۔ دورانِ عدّت انھوں نے کھجور کے باغ میں کام کے لیے جانا چاہا تو خاندان کے ایک شخص نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا کہ عدّت کے دوران میں عورت کا گھر سے باہر جانا جائز نہیں ہے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنامسئلہ پیش کیا اور اس کا جواب چاہا۔ آپؐ نے انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دے دی اور فرمایا
بَلیٰ ، فَجُدِّیْ نَخْلَکِ ، فَاِنَّکِ عَسیٰ أنْ تَصَدَّقِي أوْ تَفْعَلِی مَعْرُوْفاً ۔ ( مسلم۱۴۸۳)
’’کیوں نہیں ، تم کھجور کے باغ جاکر کھجوریں توڑ سکتی ہو۔اس طرح امید ہے کہ تم کچھ صدقہ یاکوئی دوسرا نیک کام کرسکو گی۔‘‘
اپنی بیٹی سے کہیے کہ عدّت کی مکمل مدّت کے لیے رخصت حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔مکمل مدت کے لیے نہ مل سکے تو جتنی مدت کے لیے مل جائے اس میں گھر پر رہیں ۔ اگربالکل رخصت نہ مل سکے تو وہ لیب جا سکتی ہیں ۔ البتہ کوشش کریں کہ رات لازماً گھر پر ہی گزاریں ۔