ایک عورت شوہر کے ظلم وزیادتی، حق تلفی اور ناانصافی سے پریشان ہے۔ وہ اس حد تک عاجز آچکی ہے کہ اس سے خلع حاصل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ لیکن اسے اندیشہ ہے کہ خلع کے بعد ممکن ہے، اس کی دوسری شادی نہ ہوسکے، یا ہونے میں کئی سال کی تاخیر ہوجائے۔ اس صورت میں اس کی گزر اوقات دشوار ہوجائے گی۔اس لیے وہ چاہتی ہے کہ پہلے کسی ایسے شخص کو تلاش کرلے جس سے شوہر سے خلع لینے کےبعد نکاح کرسکے اور اس سے نکاح کا پختہ وعدہ بھی کرالے، اس کے بعد خلع کی کارروائی کرے۔
کیا شرعی اعتبار سے اس کی اجازت ہے؟ کیا خلع سے قبل وہ کسی اجنبی مرد سے نکاح کی بات کرسکتی ہے؟
جواب
نکاح زوجین کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ کو طلاق یا خلع کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے شوہر آئندہ بیوی سے ازدواجی رشتہ باقی نہ رکھنا چاہے تو وہ طلاق دے دے گا اور اگر بیوی شوہر سے اپنا تعلق جاری نہ رکھنا چاہے تو وہ خلع کے ذریعے اس سے گلوخلاصی کرسکتی ہے۔
لیکن اسلام رشتۂ نکاح کو محترم قراردیتا ہے ، اس لیے وہ اخلاقی طورپر یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب تک یہ رشتہ قائم ہے، اس وقت تک کسی دوسرے رشتۂ نکاح کی بات نہ کی جائے، بلکہ اس کا خیال بھی دل میں نہ لایاجائے۔ قرآن کریم میں ہے
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِـيْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَاۗءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَہُنَّ وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۰ۥۭ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّكَاحِ حَتّٰي يَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَہٗ۰ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِىْٓ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْہُ۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۲۳۵ۧ
(البقرۃ۲۳۵)
’’زمانۂ عدت میں ، خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کردو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گاہی، مگر دیکھو! خفیہ عہدوپیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے تو معروف طریقے سے کرو اور عقدِنکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک عدت پوری نہ ہوجائے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے، لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزرفرماتاہے۔‘‘
سورۂ بقرہ میں طلاق کے احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے آیات۲۲۷۔۲۴۲) اسی کے درمیان میں مذکورہ آیت آئی ہے۔ اس میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ زمانۂ عدّت میں عورت سے نکاح کا ارادہ اشارے کنایے میں تو ظاہر کیاجاسکتا ہے، لیکن کھلے طورپر اور واضح الفاظ میں نکاح کی بات نہیں کی جاسکتی۔ جب اتنی سخت تاکید عدّت کے دوران میں کی گئی ہے تو عدّت سے قبل، حالاں کہ عورت ابھی رشتۂ نکاح میں بندھی ہوئی ہے، اس کے لیے اگلے نکاح کی بات کرنا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟
ایک حدیث حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ اِمْرَأۃً عَلَی زَوْجِھَا (ابودائود۲۱۷۵)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے۔‘‘
عربی زبان میں ’خبّب‘ کے معنیٰ ہیں بگاڑ دینا، خراب کردینا ، فساد پیدا کردینا، وغیرہ۔ حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس شخص کی مذمّت کی ہے اور اس سے اپنی براءت ظاہر کی ہے جو کسی عورت کی اس کے شوہر سے علیٰحدگی کا سبب بنے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاًوہ بیوی کے سامنے شوہر کی برائی کرے، اس کی خامیاں ابھارکرپیش کرے، اس کی ایسی باتیں نمایاں کرے جس سے بیوی کے دل میں شوہر سے نفرت بڑھے۔ یہ کام اگر وہ عورت سے آئندہ نکاح کرنے کا ارادہ کیے بغیر کرے تو بھی بُرا ہے، لیکن اگر اس کے پس پشت عورت سے نکاح کا ارادہ ہوتو اس کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے۔
شوہر سے عورت کا نباہ نہ ہوپارہاہوتو اسے علیٰحدگی حاصل کرنے کا حق ہے۔ وہ خلع لےسکتی ہے۔ خلع ہوجانے اور عدّت گزرجانے کے بعد وہ اپنے دوسرے نکاح کی فکر کرسکتی ہے اور اس کے سرپرست اس کے لیے دوسرا رشتہ تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن خلع کی کارروائی مکمل ہونے سے قبل ہی دوسرا رشتہ تلاش کرلینا اور کسی مرد سے باقاعدہ نکاح کی بات کرلینا درست نہیں ہے۔