دھوکا اور طلاق

ایک صاحب کا نکاح ہوا۔ انھوں نے بیوی کو مہر کے علاوہ ایک مکان بھی بہ طور تحفہ دیا اور اس کی گفٹ رجسٹری اس کے نام کروادی۔ مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب اس بیوی سے ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو ان کا دل پھر گیا۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، بل کہ اسے اطلاع دیے بغیر تحفے میں دیے گئے مکان کی رجسٹری بھی منسوخ کروا دی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو دیا گیا تحفہ واپس لیا جاسکتا ہے، شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا ان صاحب کی بات صحیح ہے؟
جواب

تحائف کے لین دین کو اسلام میں پسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور اس عمل کو باہم محبت میں اضافہ ہونے یا دلوں کا کینہ دور ہونے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ (بخاری فی الادب المفرد، بیہقی) اسی طرح احادیث میں کسی کو تحفہ دے کر واپس لینے کو ناجائز کہا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی چیز تحفے میں دے کر واپس لے لے، ہاں باپ اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے، ایسا کرنے والے کی مثال اس کتے کی سی ہے جو قے کرکے پھر اسی کو چاٹ لے‘ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) اسی لیے جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی کو تحفہ دے کر اسے واپس لینا حرام ہے۔ خواہ یہ معاملہ بھائیوں کے درمیان ہو یا میاں بیوی کے درمیان۔ (فقہ السنۃ، سید سابق، بیروت، ۳/۵۵۱)
حدیث میں باپ کے لیے بیٹے کو دیے گئے تحفے کو واپس لینے کے جواز کی بات اپنے عموم پر نہیں ہے، بل کہ اس صورت میں ہے کہ کسی شخص کے کئی بیٹے ہوں ، تو چوں کہ یہ نا انصافی ہے، اس لیے ایک بیٹے کو دیے گئے تحفے کو وہ واپس لے سکتا ہے۔ یہ وضاحت دیگر احادیث میں موجود ہے۔
صورت ِ مسئولہ میں اور بھی کئی غلط کام کیے گئے ہیں :
۱- اولاد نہ ہونے کی بنا پر بیوی سے قطع تعلق کرلیا، حالاں کہ اولاد ہونا یا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے، اس میں بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے۔
۲- بیوی کو طلاق مغلظہ دی، حالاں کہ یہ طلاق کا غیر مسنون طریقہ ہے۔
۳- بغیر اطلاع دیے (دھوکے سے) گفٹ رجسٹری کو منسوخ کروا دیا۔
متعلقہ فرد نے کئی ناجائز کاموں کا ارتکاب کیا ہے۔ انھیں اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ تلافی کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ وہ سابقہ بیوی کو تحفے میں دیا گیا مکان واپس کردیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔