دینی اجتماعات میں خواتین کے لیے پروجیکٹر کا استعمال

ادارہ فلاح الدارین کے نام سے ہم ایک ادارہ چلا رہے ہیں ، جس کے تحت مختلف اوقات میں کانفرنسوں اور دینی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان میں عورتوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہیں مخصوص نہیں ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے ہم انھیں مسجد کی دوسری منزل پر بٹھاتے ہیں ۔ چوں کہ مقرر سامنے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی توجہ پروگرام سے ہٹ جاتی ہے اور مقصد فوت ہوجاتا ہے، اس لیے اگر پروگرام کو مؤثر بنانے کے لیے خواتین کے لیے Projectorیا L.C.D.کا انتظام کیا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ مہربانی کرکے ہماری رہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں ۔
جواب

دینی احکام اور تعلیمات کے مخاطب، جس طرح مرد ہیں اسی طرح خواتین بھی ہیں ۔ اس لیے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا اور اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
عہد ِ نبوی میں خواتین بھی حدود و آداب کی رعایت کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلسوں میں شریک ہوتی تھیں ، آپؐ سے مختلف مسائل دریافت کرتی تھیں اور آپ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے۔ بعض مخصوص ایام میں آپؐ صرف خواتین کے اجتماعات کو خطاب کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید خدریؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ کے وعظ و ارشاد سے صرف مرد ہی فیض اٹھاتے ہیں ، اس لیے ایک دن ہمارے لیے خاص کردیجیے، جس میں ہم عورتیں اکٹھا ہوکر آپ سے تعلیم حاصل کیا کریں ۔ آپؐ نے فرمایا: تم سب فلاں دن فلاں جگہ اکٹھی ہوجانا۔ چناں چہ عورتیں مقررہ وقت پر بتائی ہوئی جگہ اکٹھا ہوئیں ۔ آپؐ وہاں تشریف لے گئے اور انھیں دینی باتیں بتائیں ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام، باب تعلیم النبی امتہ من الرجال والنساء، حدیث : ۷۳۱۰)
ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ نے عید الفطر (یا عید الاضحی) کا خطبہ دیا۔ پھر آپ کو احساس ہوا کہ آپ کی آواز عورتوں تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ چناں چہ آپؐ اس جگہ تشریف لے گئے جہاں عورتیں اکٹھی تھیں اور انھیں وعظ و تلقین کی۔ ( صحیح بخاری، کتاب العلم، باب عظۃ الامام النساء و تعلیمھن، حدیث : ۹۸، امام بخاریؒ نے یہ حدیث مزید پندرہ مقامات پر ذکر کی ہے اور اس سے مختلف مسائل کا استنباط کیا ہے)
دینی اجتماعات کا ایک اہم مقام مساجد ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ان میں خواتین کی حاضری کی روایت نہیں ہے۔ وہ اپنے مختلف کاموں اور ضروریات کی انجام دہی کے لیے ہرجگہ پہنچ جاتی ہیں ، لیکن مساجد کے دروازے ان کے لیے بند ہیں ۔ وہاں کے خطبوں ، وعظ و ارشاد کی مجلسوں اور دینی اجتماعات سے ان کے استفادے کی صورت نہیں ہے۔ عہد نبوی میں عورتیں مسجد جایا کرتی تھیں اور آں حضرت ﷺ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان کم سے کم اختلاط ہونے کی خصوصی تدابیر اختیار فرمائی تھیں ۔ چناں چہ ان کی صفیں علاحدہ کردی تھیں اور ان کے لیے مسجد کا ایک دروازہ خاص کردیا تھا، جس سے مردوں کو آنے جانے کی ممانعت تھی۔
مساجد یا دوسرے مقامات پر منعقد ہونے والے دینی اجتماعات میں خواتین کو بھی شریک کرنا چاہیے اور اس کے لیے خصوصی انتظامات کرنے چاہئیں ۔ مثلاً ان کی نشستیں الگ ہوں اور پردے کا بھی مناسب انتظام ہو۔ یہ صورت بھی اچھی ہے کہ مسجد کی دوسری منزل پر انھیں بٹھایا جائے۔
یہ صحیح ہے کہ مقرر سامنے نہ ہونے کی وجہ سے سامعین کی توجہ ہٹتی ہے۔ اس لیے دوسری منزل پر رہنے والے لوگوں کے لیے، خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین، ٹیلی ویژن یا پروجیکٹر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تصویر کی حرمت کے سلسلے میں ، جو آیات ِ قرآنی اور احادیث ِ نبوی ہیں ، محقق علماء کا خیال ہے کہ ان کا اطلاق اس صورت پر نہیں ہوتا۔
گزشتہ سال اپنے سفرِ خلیج کے دوران میں نے جگہ جگہ دیکھا کہ وہاں کے دین پسند حلقے اپنے چھوٹے چھوٹے پروگراموں میں بھی پروجیکٹر کا استعمال کرتے ہیں اور دینی اجتماعات میں اپنی خواتین کو بھی شریک کرتے ہیں ۔ ایک موقعے پر مجھے خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کا موقع ملا۔ ایک کمرے میں خواتین اکٹھا تھیں ۔ دوسرے کمرے میں بیٹھ کر مائک سے میں نے درس قرآن دیا۔ خواتین نے اپنے کمرے میں ٹی وی اسکرین پر میرا درس سنا۔ درس کے بعد انھوں نے تحریری اور زبانی سوالات کیے، جن کے جوابات دیے گئے۔